اتفاق رائے کی ضرورت

وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ کوئی بھی آئینی کام اس وجہ سے غیر آئینی نہیں ہوتا کہ مقررہ مدت میں نہیں ہوا، 90دن کے بعدہونے والے الیکشن کے لیے قانون سازی کی ضرورت نہیں۔اس سوال کے جواب میںکہ 90دن بعد صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوئے تو ان کی آئینی حیثیت کیا ہوگی؟ اس پروفاقی وزیر قانون کا کہنا تھا کہ آئینی کام کے مقررہ مدت میں مکمل نہ ہونے کی مستند وجوہات ہونی چاہئیں۔ان کا کہنا تھا کہ90دن کے بعد ہونے والے الیکشن کے لیے قانون سازی کی ضرورت نہیں لیکن متعلقہ اداروں کو الیکشن وقت پر نہ ہونے کی ٹھوس وجہ دینا ہوگی۔ وفاقی وزیر قانون کا کہنا تھا کہ کوئی بھی آئینی کام اس وجہ سے غیرآئینی نہیں ہوتاکہ مقررہ مدت میں نہیں ہوا، آئین کے ساتھ ایسے مذاق نہیں ہونے چاہئیں، آئین میں شق ہے کہ آئینی کام مقررہ مدت میں نہ ہونے کی ٹھوس وجوہات ہونی چاہئیں۔ملک میں ضمنی انتخابات کے التواء اور وقت پر نہ ہونے کے حوالے سے پہلے ہی سے تحفظات کا اظہار ہو رہا ہے گورنر خیبر پختونخوا اور گورنرپنجاب جہاں ضمنی انتخابات ہونے ہیں ان کا موقف اور بیانات بھی ضمنی انتخابات کے انعقاد کے حق میں نظر نہیں آتے ۔ بہرحال معاملہ عدالت کے بھی زیر نظر ہے اور الیکشن کمیشن جیسا آئینی ادارہ بھی اس معاملے کا فریق ہے جہاں تک اس امر کا تعلق ہے کہ ملک میں ضمنی انتخابات کو انعقادہوتاکہ بلاوجہ کے اخراجات سے بچا جا سکے جاری معاشی صورتحال کے تناظر میں موزوں تجویز ہے لیکن یہ تجویز اگر ساری سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے سے آئے تو موزوں ہو گا ۔وزیر اعظم نے جوآل پارٹیز کانفرنس طلب کر رکھی ہے موزوں ہو گا کہ ساری سیاسی جماعتیںاس میں شرکت کرکے اس تجویز پر اتفاق کریں اور ضمنی انتخابات کا تنازعہ کا باعث نہ بنایا جائے سیاسی جماعتوں کو ہر جگہ اپنا موقف اورمفاد ہی مد نظر نہ رہے ملک و قوم کی بھلائی کے لئے ضمنی کی بجائے عام انتخابات کے حوالے سے کوئی درمیانی فارمولہ وضع ہوتو بہتر ہو گا امید کی جانی چاہئے کہ ہر جماعت اپنی کرنے کی بجائے ملک و قوم کے مفاد کو مد نظر رکھے گی او ر کوئی اجتماعی فیصلہ سامنے لایا جائے گا۔توقع کی جانی چاہئے کہ سیاسی جماعتیں ملک و قوم کے مسائل اور مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے اس ضمن میں اتفاق رائے سے فیصلہ کریں گی۔

مزید پڑھیں:  ملتان ہے کل جہان