ضم اضلاع کے عوام کی محرومیاں

سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے دعویٰ کیا ہے کہ قبائل کو ایک ہزار ارب روپے دینے کے لئے خیبر پختونخوا سمیت کوئی بھی صوبائی حکومت تیار نہیں تھی۔ ضم اضلاع کو85ارب روپے کا بجٹ دینے کا کوئی وعدہ نہیں ہوا۔ضم اضلاع کے عوام کے ساتھ جو وعدہ انضمام کے وقت کیا گیا پی ٹی آئی وہ وعدہ ایفا نہیں کر سکی۔ سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ سابق صوبائی وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا سے کبھی بھی قبائل کے لئے 85ارب روپے دینے کا وعدہ نہیں کیا گیا تھا۔ قبائل کے صوبے میں انضمام کے وقت ایک ہزار ارب روپے دینے کا وعدہ کیا گیا۔2018سے صوبے اور وفاق میں پی ٹی آئی کی حکومت تھی تاہم خیبر پختونخوا سمیت کوئی بھی صوبائی حکومت یہ ادائیگی کرنے کو تیار نہیں تھی۔ قبائل کوقومی دھارے میں لانے کے لئے سب کو کردار ادا کرنا ہوگا۔ اس سے قبل کئی پریس کانفرنسوں میں تیمور سلیم جھگڑا دعویٰ کر چکے ہیں کہ قبائل کو85ارب روپے کا فنڈ دینے کا وعدہ مفتاح اسماعیل نے کیا جس سے وہ مکر گئے اور صرف60ارب روپے منظور کئے گئے۔ 25ارب روپے کی کمی کے باعث قبائلی اضلاع شدید مالی بحران کا شکار ہیں۔قبائلی اضلاع کے انضمام کی صورت میں ایک ہزار ارب روپے دینے کاوعدہ ایفاء کرنا انضمام کے وقت قائم حکومت کی ذمہ داری تھی جس کی ادائیگی بروقت شروع ہوجاتی تو بعد میں آنے والی حکومتوں کے لئے اس سے احتراز ممکن نہ ہوتا اس ضمن میں تنقید اور دوسروں پر ذمہ داری عائد کرنے کی بجائے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ ضم اضلاع کو مقررہ رقم یا پھر اس کے حصے کی رقم کو این ایف سی کا اجلاس بلا کر مختص کرنے پر اتفاق کو یقینی بنایاجائے ۔ گزشتہ دور حکومت میں اس حوالے سے غفلت کا مظاہرہ کیاگیا اور این ایف سی اجلاس طلب کرکے اتفاق رائے حاصل کرنے کی ضرورت پوری نہ کی گئی یہ درست ہے کہ صوبوں کواس پراعتراض رہا ہے سندھ اس پر بطور خاص معترض ہے جس کے قطع نظر گزشتہ دورحکومت میں پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت تھی خیبر پختونخوا میں بھی وہی جماعت حکمران تھی بلوچستان کی مخلوط حکومت میں بھی اس کا حصہ تھا اس کے باوجود اتفاق رائے تو کجا اس بارے سنجیدہ سعی ہی نہ ہونا وہ کوتاہی ہی ہے جس پر تنقید ہو سکتی ہے مستزاد سو ارب روپے دینے میں بھی لیت و لعل کا مظاہرہ سامنے آیا موجودہ حکومت کے لئے اس بناء پر اس حوالے سے کوئی پیش رفت کرنا اس لئے مشکل تھا کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے وزرائے اعلیٰ آئین کے مطابق بھی کردار ادا کرنے پر تیار نہ تھے اور اب دو صوبوں میں نگران حکومت ہے جن کے پاس عوام کا مینڈیٹ نہیں اور نہ ہی ان حالات میں اس طرح کا پیچیدہ عمل اس کے مینڈیٹ کا حصہ ہے ہمارے تئیں ضم ا ضلاع کے عوام کو محروم رکھنے میں تحریک انصاف اور پی ڈی ایم کی جماعتوں کی حکومتیں ہوں یا پھر آئندہ آنے والی حکومت کے حوالے سے بھی خیر کی توقع نہیں بہرحال قبل از وقت کسی حکومت کے حوالے سے کچھ کہنا درست نہ ہو گا البتہ یہ ایک ایسا سنگین مسئلہ ہے جس پر مجوزہ آل پارٹیز کانفرنس میں غور ہونا چاہئے اور اس کے لئے لائحہ عمل وضع ہو تو موزوں ہوگا۔ اس امر کے اعادے کی ضرورت نہیں کہ ضم قبائلی اضلاع کے عوام کوکن محرومیوں اور مسائل کا سامنا ہے ان کی حق تلفی کا جو سلسلہ جاری ہے اور ملک میں کوئی بھی ان کے جائز حق کو تسلیم کرنے اور ادائیگی کے لئے سنجیدہ نہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ ضم اضلاع کے لئے این ایف سی ایوارڈ کامجوزہ تین فیصد حصہ خیبر پختونخوا کی بجٹ کا حصہ بنایا جائے اور رقم کا دیانتدارانہ اور درست انتظام کے ساتھ پوری منصوبہ بندی سے خرچ کرکے ضم اضلاع کے عوام کی محرومیاں دور کی جائیں ایسا کرکے ہی ان کو عملی طور پر قومی دھارے میں شامل کیا جا سکتا ہے اور انضمام کے ثمرات سے ان کو مستفید کرنا ممکن ہوگا یہ ساری سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے آمدہ انتخابات میں ضم قبائلی اضلاع کے عوام کو اس بارے سیاسی جماعتوں سے وعدہ لینا چاہئے تاکہ بعد ازاں جوبھی حکومت آئے وہ اس مسئلے کو خوش اسلوبی سے حل کرنے کا پابند ہو۔

مزید پڑھیں:  برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر؟