مشرف ہیرو نہیں

جنرل پرویز مشرف انتقال کر گئے۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔جنرل صاحب ہماری بہادر مسلح افواج کے سر براہ رہے تھے۔ایک پاکستانی کی حیثیت سے ہم ان کی فیملی کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔اور ان کی فیملی کے لئے صبر جمیل کی دعا کرتے ہیں۔لیکن کچھ سوالات تو بہرحال موجود ہیں ۔جو تاریخ دان ہمیشہ پوچھتے رہیں گے۔
کیا جنرل صاحب کا ایک جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار میں آنا جمہوری طور پر منتخب وزیراعظم کو ہتھکڑی لگا کر جہاز کی سیٹوں سے باندھنا ‘نام نہاد جہاز اغوا کیس بنا کر جیل میں ڈالنا اور بعد میں پھانسی کی دھمکی دے کر ملک بدری پر مجبور کرنا دنیا کے کسی بھی قانون اور اخلاقیات کے کسی بھی پیمانے پر جائز تھا ؟
کیا آٹھ سالہ اقتدار کے مزے لوٹنے کے بعد مزید پانچ سالہ صدارت کے لئے سیاستدانوں سے ساز باز جائز تھا ؟ کیا دو بڑی پارٹیوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے لیڈروں محترم نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کو کئی سال تک راندہ درگاہ بنانے کے بعد محض اپنے ذاتی اغراض کے لئے نام نہاد این آر او دینا جائز تھا ؟ اگر یہ لوگ مجرم تھے اور پاکستان کو لوٹنے کا جرم کر چکے تھے تو آمر کی طرف سے ان کو معافی
کس قانونی اور اخلاقی لحاظ سے جائز تھی ؟ کیا ان لوگوں نے پرویز مشرف کی ذاتی جائیداد لوٹی تھی جو مشرف معاف کر سکتا تھا ۔یا وہ قومی دولت لوٹ چکے تھے۔جس کی معافی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا تھا ؟ کیونکہ ایسا جرم دنیا کے کسی بھی ملک کے قوانین ‘اقدار اور اخلاقیات کے لحاظ سے نا قابل معافی تھااور اگر ان دونوں سیاسی لیڈروں پر لگائے گئے الزامات غلط تھے۔تو پھر مشرف کو این آر او جاری کرنے کے اعلان میں یہ بات بھی شامل کرنی چاہئے تھی کہ انہوں نے پاکستان کے دو مستند سیاسی لیڈروں پر ناجائز مقدمے بنا کر ان کو کئی سال تک جلا وطنی پر مجبور کیا۔اس لئے وہ قوم سے معافی مانگتے ہوے فوری طور پر مستعفی ہو رہے ہیں اور اپنے آپ کو قوم اور عدالتوں کے رحم و کرم پر چھوڑ رہے ہیں۔ کیا ایک کھلی آئین شکنی اور آٹھ سال تک اقتدار کے مزے لوٹنے کے بعد جنرل مشرف کے لئے یہ کسی بھی لحاظ سے جائز تھا۔ کہ وہ دوسری مرتبہ آئین کو معطل کر کے ایمرجنسی نافذ کریں اور پاکستان کو فٹ بال سمجھ کر مزید ککیں مارنا شروع کر دیں؟ کیا دنیا کی تاریخ میں یہ ایک انوکھا واقع نہیں ہے کہ جب عدلیہ نے جنرل مشرف کے نئی غیر آئینی اقدامات کا مزید ساتھ دینے سے انکار کیا تو ساٹھ سے زیادہ ججوں کو گھروں میں نظر بند کر دیا تھا ؟ کیا ایک پرائی اور بے چہرہ جنگ میں کود کر ستر ہزار
پاکستانیوں کی شہادت کا باعث بننا ایک گناہ عظیم نہیں تھا ؟ کیا محض ایک فون کال پر ڈھیر ہو کر پورے ملک کو امریکی جھولی میں ڈالنا ایک بہت بڑا جرم نہیں تھا ؟ کیا اپنے ملک کے تین اڈوں کو امریکہ کے حوالے کرکے ایک مسلمان ملک پر باسٹھ ہزار مرتبہ بمباریاں کرانا قابل معافی جرم ہے ؟ جبکہ کور کمانڈرز کی میٹنگ میں ہماری بہادر مسلح افواج کے کئی جہاں دیدہ اور دور اندیش کور کمانڈر اس کی مخالفت کر چکے تھے ۔لیکن مشرف نے ان کے بات یہ کہ کر رد کردی کہ میں امریکیوں سے یہ اڈے دینے کا وعدہ کر چکا ہوں۔کیا مشرف کا ذاتی وعدہ پاکستان کے وقار’اسلامی تشخص اور دور رس مفادات سے زیادہ اہم تھا ؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ اپنے ہی برادر مسلمان پڑوسی ملک پر ایک غیر مسلم ملک کی طرف سے سالہا سال تک بمباری کرانے کے جرم کے نتیجے میں ہم کسی بھی مسلمان ملک کے لئے قابل بھروسہ نہیں رہے ؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ نائن الیون کے بعد مشرف اپنی سرحدیں مکمل بند کراکے غیر جانبدار رہنے کا اعلان کر سکتے تھے۔اگر پاکستان میں ایک مضبوط اور آزاد پارلیمنٹ موجود ہوتی تو امریکہ کے لئے دی گئی ان خدمات کے
بدلے اپنے سارے قرضے معاف اور کشمیر کا قضیہ صاف کرا سکتی تھی ۔لیکن مشرف تو ہمیں مفت میں پھانسی گھاٹ تک لے گیا؟ کیا لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر بارود کی بارش برسانا اور قوم کی بیٹیوں کو شہید کرانا جائز تھا۔کیا لال مسجد کے امام غازی برادران نے اتنا بڑا جرم کیا تھا کہ وہ ماں بچوں سمیت قتل کئے جانے کے مستحق تھے ؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ طوائفوں کا اڈہ چلانے والی ایک خاتون کو مسجد لاکر اس سے توبہ کرانا اور فحش فلموں کے کاروبار کو رکوانا اگر جرم تھا بھی تو اس کی سزا زیادہ سے زیادہ چند مہینے قید ہو سکتی تھی۔موت نہیں۔
مندرجہ بلا دس سوالات کو محض اس قسم کے مصنوعی پروپیگنڈوں سے دبانا آسان نہیں ہوگا۔ کہ موصوف جنرل صاحب بہت بہادر اور دلیر تھے۔سچے پاکستانی تھے۔میڈیا کو آزادی دی۔بلدیاتی نظام دیا’ڈالر ساٹھ روپے کا تھا۔ وغیرہ وغیرہ۔جنرل
صاحب کی بہادری کا نہ تو کوئی ثبوت ہے اور نہ اس بہادری کا نظر آنے والا کوئی فائدہ۔ بلدیاتی نظام لانا مشرف کی مجبوری تھی۔تاکہ معروف سیاستدانوں کی جلا وطنی سے بنے خلا کو اپنی مرضی کی مصنوعی قیادت سے پر کیا جا سکے۔میڈیا اور غیر ملکی این جی اوز کو آزادی امریکہ اور مغرب کے دباو پر ملی۔تاکہ وہ پاکستان کی رگ و پے میں اپنے ایجنٹ فٹ کر سکیں۔ ڈالر کے ساٹھ روپے ہونے کا کیا فائدہ جب اس کی سزا ستر ہزار لاشوں کی صورت میں ملے اور ملک کا سماجی’معاشرتی اور روحانی ڈھانچہ منہدم ہونے کے ساتھ ساتھ سو ارب ڈالر سے زیادہ کا مالی نقصان بھی ہو۔ آج پاکستان بین الاقوامی برادری میں مجرم بنا اپنے بچوں کے لئے دو وقت کی روٹی مانگ رہا ہے۔ان حالات میں قوم کو مزید تاریکی میں رکھنا نہ تو ممکن ہے اور نہ مناسب۔قومی اور بین الاقوامی سوشل میڈیا اور کئی محب وطن فوجی افسران کے علاوہ جنرل شاہد عزیز جیسے محب وطن جرنیل کی کتاب”یہ خاموشی کب تک ”سے قوم کو مشرف اور اس کے ٹولے کے بھیانک کرتوتوں سے پوری آگاہی ہو چکی ہے۔ مشرف جیسے لوگوں کو ہیرو بنانے سے قوم اور اداروں میں اجنبیت پیدا ہوگی اور پاک فوج کے بہادر غازیوں اور عوام کے درمیان فاصلے بڑھیں گے۔پاک فوج اور قوم کے درمیان محبتوں کے لازوال زمزم بہ رہے ہیں۔ مشرف اور یحیی خان جیسے لوگوں کو بچانیکی خاطر ان محبتوں پر آنچ نہ آنے دیں۔ پاک فوج حقیقتا ایک اسلامی اور قومی فوج ہے۔2017میں پختونخواہ کے سب سے سینئر عالم دین شیخ الحدیث والقرآن اور جمعیت علماء اسلام کے سر پرست اعلیٰ مولانا حمد اللہ جان بابا جی مرحوم آف ڈاگئی نے میرے ساتھ ایک ملاقات میں فرمایا تھا کہ پاک فوج پر حملہ پا کستان پر حملہ ہے اور پاکستان پر حملہ اسلام پر حملہ ہے۔باباجی کی اس بات کا ذکر کئی سال پہلے روزنامہ مشرق میں چھپے ایک کالم میں کر چکا ہوں۔ پاک فوج اور پاکستان کے اس اعلیٰ مقام کا تحفظ ضروری ہے۔ اب سچ بولنے کا وقت ہے۔قوم کے سامنے مزید سمارٹ ہیروز پیش کرنے سے اجتناب کیا جائے۔مہذب اور ترقی یافتہ دنیا ہیروز کے بغیر چاند اور مریخ پر پہنچ چکی ہے۔ ۔پاکستان کو ہیروز کی نہیں بلکہ خاموشی کے ساتھ تفویض کی گئی ذمہ داری پوری کرنے والوں کی ضرورت ہے۔جو آئین اور قانون کے تابع ہوں۔ نوکری میں توسیع دینے پر آئینی پابندی ہو ۔ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے ذریعے قوم کو اپنے حکمران چننے کا حق دیا جائے۔ورنہ پاکستان قوموں کی برادری میں اسی طرح تماشہ بن کر سر بازار رسوا ہوتا رہے گا۔

مزید پڑھیں:  شاہ خرچیوں سے پرہیز ضروری ہے!