ترکیہ کا تباہ کن زلزلہ اورہم

ترکیہ اور شام میں7.8سکیل کے زلزلے نے تباہی پھیلا دی ہے ۔چند ہی گھنٹے بعد 7.5شدت کے ایک اور زلزلے نے تباہی کا گراف مزید اونچا کر دیا ۔اب تک دونو ں ملکوں میں مرنے والوں کی تعداد ڈھائی ہزار تک پہنچ گئی ہے مگر خدشہ ہے کہ نقصان اس سے کہیں زیادہ ہے ۔ترکیہ میں جانی ومالی نقصان کا تناسب شام سے کہیں زیادہ ہے۔جہاں سات صوبے اور دس شہر زلزلے سے بری طرح متاثرہو ئے ہیں ۔ہزاروں عمارتیں زمیں بوس ہو چکی ہیں اور کئی علاقوں میں برف باری کے باعث متاثرین شدید مشکلات کا شکار ہو چکے ہیں۔ترکیہ میں زلزلے سے تباہی پر اقوام متحدہ میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی ۔حکومت پاکستان نے بھی ترکی کے متاثرین کی مدد کا اعلان کیا ہے۔ترکیہ پاکستان کا برادر ملک اور دکھ سُکھ کا ساتھی ہے ۔ترکی اور پاکستانی عوام کے دل ایک ساتھ دھڑکتے ہیں ۔پاکستان میں سیلاب آئیں یا زلزلے برپا ہوں یا کوئی اور آفت اور اُفتاد آن پڑے ترکیہ پاکستان کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے ۔ترک عوام پاکستان کے دکھوں کو اپنا دکھ اور اس کی خوشی کو اپنی خوشی سمجھتے ہیں۔آٹھ اکتوبر کے تباہ کن زلزلے کے بعد اس وقت کے ترک صدر عبداللہ گل اور وزیر اعظم طیب اردگان نے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا ۔ترک ماہرین یہاں ریلیف اور ریسکیو کی سرگرمیوں میں مصروف رہے ۔ترکیہ نے متاثرین کی بحالی او رتعمیر نو میں بھی اپنا بھرپور کر دار ادا کیا ۔پاکستانی عوام ترکیہ کے اس کردار کو کبھی فراموش نہیں کرپائیں گے ۔اس کے بعد جب سیلاب نے پنجاب اور سندھ میں تباہی مچائی اور ترکیہ ایک بار پھر پاکستانیوں کی مدد کو دوڑا آیا۔ترک خاتون اول نے متاثرین سیلاب کی مدد کے لئے اپنا ہار تک اُتار کر عطیہ کیا ۔ یہ الگ بات کہ بعد میں یہ ہار ہماری قومی سُبکی کا باعث بنا تھا۔پانچ اگست2019کو جب بھارت نے کشمیر کی شناخت پر حملہ کیا تو پاکستان نے مسلم اُمہ اور او آئی سی کی طرف مدد طلب نظروں سے دیکھا تو پیچھے کوئی نہیں تھا پاکستان اس ماحول میں تنہا تھا مگر یہ ترکیہ کے صدر رجب طیب اردگان ہی تھے جو کشمیریوں کی حمایت میں پاکستان کے ساتھ کھڑے ہوئے ۔طیب اردگان نے سود وزیاں کی پروا کئے بغیر بھارت کی مذمت کی اور کشمیریوں کی بھرپور حمایت کی ۔آج جبکہ ترک قوم پر ایک آفت ٹوٹ پڑی ہے تو پاکستان شدید مالی مشکلات کا شکار ہے ۔اس بحران کی زد پاکستان کے عام آدمی پر بھی پڑی ہے ۔اس کے باوجود پاکستان کے عوام کو ترکیہ کے عوام کی محبتوں کا قرض چکانے کا یہ موقع ضائع نہیں کرنا چاہئے اور متاثرین کی مدد کے لئے اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہئے ۔ترکیہ میں ہونے والی تباہی کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ اس وقت پاکستانی عوام کو حکومت کا انتظار کرنے کی بجائے ازخود متحرک ہوجانا چاہئے۔ احسان کا بدلہ احسان کے اصول کے تحت مخیر حضرات کو آگے آنا چاہئے ۔ترک عوام کو یہ نظر آنا چاہئے کہ پاکستانیوں نے ان کا درد وکرب محسوس کیا ہے ۔اس کے ساتھ ہی ترکیہ اور شام سمیت کئی ملکوں میں محسوس کئے جانے والے اس زلزلے میں ہمارے لئے سبق ہے ۔ترکیہ کے زلزلے سے
تین دن قبل ڈچ ماہر ارضیات اور تحقیقی ادارے” سولر سسٹم جیومیٹری سروے” سے وابستہ ماہر اور محقق فرینک ہوگر بیٹس نے تین دن قبل پیش گوئی کی تھی کہ جلد یا بدیر ترکیہ شام اور اُردن میں تباہ کن زلزلے کی تباہ آئے گا ۔اس ماہر کی پیش گوئی وڈیو کی شکل میں یوٹیوب پر بھی دستیاب ہے ۔ماہر نے تو اس زلزلے کی تاریخ تک بتادی تھی ۔اسی ماہر نے اسی وڈیو میں افغانستان پاکستان اور بھارت اور چین میں بھی ایک تباہ کن زلزلے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ معاہدہ لوزان کے پس منظر میں ترکیہ کا زلزلہ اور اس کے بعد چین کے اندر اور گردنواح میں ایسے ہی تباہ کن زلزلے کی پیش گوئی سازشی تھیوری کو تقویت دی رہی ہے۔ غیب کا علم تو خدائے بزرگ وبرتر کو ہے مگر سائنس اور تحقیق نے خطرات کی آمد اور امکانات کا شعور دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔زلزلوں اور طوفانوں کے بھی کچھ ظاہری محرکات ہوتے ہیں جن کا اندازہ لگانا اب مشکل نہیں رہا ۔اس لئے محقق کی پیش گوئی کے تین بعد ترکیہ کا تباہ کن زلزلہ اور اس کے بعداب جنوبی ایشیا کے حوالے سے خدشے کا اظہار خطرے کی ایک گھنٹی ہے ۔ترکیہ کے زلزلے کے ساتھ ہی سازشی تھیوری بھی زورپکڑ رہی ہے کہ یہ زلزلہ ان قوتوں نے برپا کیا جو معاہدہ لوزان کے خاتمے پر خوف کا شکار ہیں ۔یہ سوسالہ معاہدہ رواں برس24جولائی کو ختم ہو رہا ہے جس کے بعد ترکی اپنے کئی فیصلوں اور ماضی کی غلطیوں کو درست کرنے میں آزاد ہوگا ۔اس لئے ترکی کو کمزور کرنے کے لئے زلزلہ ہارپ ٹیکنالوجی کی مدد سے برپا کیا گیا ہے ۔ہارپ امریکہ کی ریاست الاسکا میں قائم ایک سائنسی تحقیق کا ادارہ ہے جہاں سے دنیا
میں بادلوں کے قریب فضائی علاقے کا درجہ حرارت بڑھا کر اور موسموں کو کنٹرول کرکے تباہی برپا کی جا سکتی ہے ۔صاف موسم میں بادل اچانک پھٹ کر بگولہ بن جاتے ہیں جس کے نتیجے میں تباہی رونما ہوتی ہے ۔سازشی تھیوری سے قطع نظرپانچ اکتوبر کے زلزلے کی پیش گوئی بھی امریکی ماہرین نے کئی برس پہلے کی تھی ۔اس تحقیق کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا جس کا نتیجہ ہمیں بھگتنا پڑا تھا ۔اب ڈچ ماہر کی پیش گوئی کو بھی ہوا میں اُڑانے کی بجائے حفاظتی تدابیر کو تیز کیا جانا چاہئے ۔ہمیں اپنی تعمیرات کو زلزلے کے چیلنج اور خطرے کو پیش نظر رکھ کر انجام دینا چاہئے اور تباہی کا مقابلہ کرنے کی استعداد کو بڑھانا چاہئے ۔یہ خطہ جس میں ہم رہ رہے ہیں زلزلوں کی زد میں ہے۔بس زیر زمین توانائی کی پلیٹوں کے متحرک ہونے کی دیر ہے ۔ ماہرین ارضیات اس بات پر متفق ہیں کہ ہمارا ریجن خوفناک فالٹ لائن کے اوپر ہے اور یہ فالٹ لائن کسی بھی وقت متحرک ہوسکتی ہے۔ہمارے لئے یہ کوئی تصوراتی کہانی اور افسانہ بھی نہیںچند برس پہلے ہی آزادکشمیر اور بالاکوٹ خوفناک زلزلے کا شکار ہو چکے ہیں ۔یہ ایک ایسی تباہی تھی جس نے پوری دنیا کی توجہ حاصل کی تھی ۔اس لئے ہمیں زلزلے کی تباہ کاریوں کے حوالے سے زیادہ محتاط اور حساس ہونا چاہئے ۔گردوپیش کے واقعات سے سبق سیکھنا بھی ضروری ہے۔قابل افسوس بات یہ ہے کہ ہم نے نہ تو اپنے گھر کی تباہی سے اور نہ ہی گردوپیش کے حادثات سے کوئی سبق سیکھا ہے ۔زلزلے کے حوالے سے نہ تو بلڈنگ کوڈز کا خیال رکھا گیا نہ ہی تباہی سے نمٹنے کے لئے خود کو مہارت اور وسائل سے لیس کیا گیا ہے ۔اب بھی مکھی پر مکھی مارنے کی روش جاری ہے ۔ترکیہ کی تباہی نے ایک بار پھر ہمیں اس حوالے سے اپنا جائزہ لینے اورخوداحتسابی کا موقع فراہم کیا ہے ۔

مزید پڑھیں:  پشاور کامقدمہ