کشمیری تحریک حریت اور سلامتی کونسل

گزشتہ سے پیوستہ روز وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ کشمیریوں کو آزادی کی منزل سے ہمکنار کرنے کے لئے پاکستان کو معاشی طاقت بنانا ہوگا، آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ آزادی کے لئے نعرے، تقریریں نہیں عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر کو دنیا کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل کردیا ہے۔ پاکستان کو درپیش معاشی چیلنجز کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے گزشتہ روز ہی یہ کہا کہ یہ چیلنجز بہت شدید نوعیت کے ہیں۔ آئی ایم ایف ایک ایک دھیلے کی سبسڈی دیکھ ر ہا ہے۔ مشکل صورتحال سے سب کو مل کر نمٹنا ہوگا۔ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی حمایت تقسیم برصغیر کے بعد سے اب تک پاکستان کا قومی بیانیہ ہے ہر دور کی حکومت نے حالات اور نتائج کی پروا کئے بغیر مظلوم کشمیریوں کی سیاسی و سفارتی حمایت جاری رکھی۔ اگست 2019 کے بھارتی اقدام پر وزیراعظم نے پاکستانی موقف تفصیل کے ساتھ پیش کیا۔ بہتر ہوتا کہ وہ آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں اپنے خطاب کے دوران ایک قومی کمیشن بنانے کا بھی اعلان کرتے جو اس امر کی تحقیقات کرتا کہ کیا اس وقت کا بھارتی اقدام امریکہ کے توسط سے کرائی گئی کسی یقین دہانی پر ہوا تھا۔ عین ممکن ہے کہ یقین دہانی کے حوالے سے اگست 2019 اور بعد میں عالمی ذرائع ابلاغ کی رپورٹس محض پروپیگنڈہ ہوں اور اس کا مقصد کشمیریوں کی تحریک حریت میں مایوسی پھیلانا اس کے باوجود ایک قومی کمیشن کا قیام اور اس سارے معاملے کا جائزہ ازبس ضروری ہے ۔ فروری مارچ 2019 میں بنکاک میں منعقدہ ایک کانفرنس کے دوران بھارتی وزیر خارجہ نے مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے اپنی حکومت کی نئی ترجیحات اور ممکنہ اقدام کے حوالے سے امریکی وزیر خارجہ کو اعتماد میں لیا تھا۔ وزرائے خارجہ کی
اس گفتگو کو کانفرنس میں موجود عالمی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کی رپورٹنگ سے خبر کی صورت ملی۔ اگست 2019 تک امریکیوں نے اس خبر کی کبھی بھی تردید نہیں کی کہ بھارتی وزیراعظم نے بنکاک کانفرنس میں اس اقدام سے پیشگی آگاہ کردیا تھا۔ جولائی 2019 میں اس وقت کے وزیراعظم عمران خان اپنی جماعت کے ایک کنونشن سے خطاب کرنے کے لئے امریکہ پہنچے اس دورے میں پاکستان کی درخواست پر صدر ٹرمپ سے بھی ان کی ملاقات ہوئی۔ اسی عرصہ میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی امریکہ کا دورہ کیا۔ پینٹاگون کے دورہ کے دوران انہیں سربراہ مملکت کا پروٹوکول دیا گیا۔ دو اہم پاکستانی عہدیداروں کے دورہ امریکہ کے اگلے ماہ اگست 2019 میں بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرتے ہوئے اولا اسے تین حصوں میں تقسیم کیا اور ثانیا مقبوضہ وادی کو باقاعدہ بھارتی صوبے کا درجہ دے دیا گیا۔ کارگل و لداخ وغیرہ کو وفاقی علاقہ قرار دینے کا فیصلہ بھی اس اقدام کا حصہ ہے اس بھارتی اقدام کے بعد ہی یہ خبریں سامنے آئیں کہ بھارتی اقدام میں امریکی رضامندی اصل میں پاکستان کی یقین دہانی کی مرہون منت ہے۔ خود کشمیری تحریک حریت کے بعض رہنما بھی بھارتی اقدام کے جواب میں ڈھل مل پر مبنی پاکستانی ردعمل پر حیرانی ظاہر کرتے رہے۔ بعدازاں گلگت بلتستان اسمبلی کے عام انتخابات سے قبل آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی نگرانی
میں ہونے والی سیاسی مشاورتی کانفرنس میں انتخابات سے قبل گلگت بلتستان کو صوبہ کا درجہ دینے کے سوال پر غور ہوا اس تجویز پر آزاد کشمیر اور خود گلگت بلتستان کی سیاسی قیادتوں نے شید منفی ردعمل کا مظاہرہ کیا۔ کہا گیا کہ گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کی تجویز مقبوضہ کشمیر کے بھارت میں ضم کئے جانے کا جواب ہے اس سے متنازعہ علاقوں پر پاکستان کا دیرینہ موقف کمزور ہوگا۔ گو یہ تجویز کاغذوں میں ہی رہ گئی مگر اس کی بدولت جو سوالات اٹھے اس کا جواب دینے سے گریز کیا گیا۔مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی کے بہرطور دو پہلو ہیں تحریک حریت کا ایک گروپ خودمختار کشمیر کا علمبردار ہے دوسرا گروپ کشمیر کے پاکستان سے الحاق کا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادیں ان دونوں سے یکسر مختلف ہیں۔ سلامتی کونسل کی قرارداد برائے رائے شماری کے مطابق تقسیم شدہ کشمیر کے دونوں حصوں میں رائے شماری سے قبل پاکستان آزاد کشمیر سے اپنی فوج واپس بلالے گا جبکہ بھارت اپنے زیرانتظام کشمیر میں امن و امان برقرار رکھنے کے لئے محدود تعداد میں سکیورٹی فورسز رکھ سکے گا۔ قرارداد کا یہ نکتہ نہ صرف حیران کن ہے بلکہ اس سے توازن بھارت کے پلڑے میں جاتا ہے۔ 1948 میں موجودہ آزاد کشمیر کو تحریک آزادی کا بیس کیمپ قرار دیئے جانے کے بعد سے آج تک سلامتی کونسل کی قرارداد کے مطابق رائے شماری کا تو تواتر کے ساتھ مطالبہ کیا جاتا آرہا ہے مگر قرارداد کے متن اور زمینی حقائق دونوں کو کبھی کسی نے مدنظر رکھنے کی ضرورت محسوس کی نہ ہی اس حوالے سے تقسیم شدہ کشمیر میں اجتماعی شعور بیدار کرنے کی کوئی کوشش ہوئی۔ جس بنیادی سوال سے ہماری سیاسی قیادت آنکھیں چرارہی ہے وہ کشمیری تحریک مزاحمت کے دو دھڑوں کے نظریات ہیں
ایک دھڑا خودمختار کشمیر کا حامی ہے دوسرا الحاق پاکستان کا۔ اس صورتحال سے یہ کہہ کر صرف نظر کرتے رہنا کہ خودمختار کشمیر والی بات سلامتی کونسل کی قرارداد میں شامل نہیں محض جی بہلانے کے لئے تو بہت ہے حقیقت میں یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے۔ آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے مشرقی تیمور جنوبی سوڈان اور شمالی آئر لینڈ کے معاملات پر عالمی رائے عامہ اور حکومتوں کے موقف پر بات کی یقینا ان کی بات اور سوال کی اہمیت دوچند ہے۔ کشمیری تحریک مزاحمت کے سارے دھڑے ایک عرصہ سے یہ سوال کررہے ہیں کہ مندرجہ بالا تینوں علاقوں کے لئے عالمی قیادت اور رائے عامہ کا یکساں موقف اور مقبوضہ کشمیر پر سردمہری و صرف نظر کی پالیسی سے یہ تاثر ابھرا ہے کہ مہذب دنیا اصل میں مذہبی طور پر تقسیم ہے ورنہ جو اصول مشرقی تیمور، جنوبی سوڈا اور شمالی آئرلینڈ پر اپنایا گیا وہی مقبوضہ کشمیر پر بھی اپنایا جانا چاہیے تھا۔ بلاشبہ مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر کی مزید تقسیم اور اس کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے لئے جو اقدامات اٹھائے وہ سلامتی کونسل کی تنازع کشمیر پر موجود اس قرارداد سے کھلا انحراف ہے جس پر خود بھارت نے بھی دستخط کئے تھے ۔ اس سارے معاملے میں پچھلے تین چار برسوں سے جو ابہام پیدا ہوئے اور اس حوالے سے شائع ہونے والی خبروں کی وجہ سے جو کچھ کہا گیا اس کی بنیاد پر بہت ضروری ہے کہ پاکستان ایک قومی کمیشن قائم کرکے تحقیقات کروائے کہ بھارتی اقدام میں کس سطح کی رضامندی شامل تھی یا یہ محض پروپیگنڈہ ہے۔ ثانیا یہ کہ ہمیں مسئلہ کشمیر پر اپنے دیرینہ موقف کا بھی ازسرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے بہترین تجویز یہی ہوسکتی ہے کہ کشمیری تحریک مزاحمت کے تمام دھڑوں کو ایک میز پر بیٹھاکر بدلتے ہوئے حالات میں انہیں اس امر پر آمادہ کیا جائے کہ وہ سلامتی کونسل کی قرارداد کی روشنی میں حق رائے شماری سے ایک قدم بھی پیچھے نہ ہٹیں ۔

مزید پڑھیں:  کیا بابے تعینات کرنے سے مسائل حل ہوجائیں گے