حکومت کا مزید قرضہ

حکومت کا 1.5ٹریلین روپے مزید قرضہ لینے کا فیصلہ

ویب ڈیسک: حکومت نے خسارے میں جانیوالے سرکاری اداروں کے ملازمین کو ماہانہ تنخواہوں کی ادائیگی اور دوسرے اخراجات پورے کرنے کے علاوہ پہلے سے لئے گئے قرضوں پر سود کی ادائیگی کیلئے مارچ سے مئی2023ء کے تین مہینوں کے دوران 1.5ٹریلین روپے کے مزید قرضے لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت نے مجموعی طور پر لئے جانیوالے قرضوں کا ہدف سات ٹریلین روپے مقررکیا ہے، ان قرضوں کا بڑا حصہ یعنی 5.5 ٹریلین روپے مالیاتی اداروں سے لئے گئے پہلے قرضوں پر سود کی مد میں ادا کر دیا جائیگا۔
عارف حبیب لمیٹڈ کے ہیڈ آف ریسرچ طاہر عباس کے مطابق آئی ایم ایف قرضہ پروگرام کی بحالی میں تاخیر کے سبب حکومت پاکستان پر اندرونی قرضوں کا بوجھ بڑھتا جا رہاہے۔ حکومتی اخراجات میں سب سے بڑا حصہ اب قرضوں پر سود کی ادائیگی ہوتا ہے۔ دو ہفتے قبل موڈیز کا اپنی رپورٹ میں کہنا تھا کہ پاکستان مالی سال 2023ء میں اپنی آمدنی کے نصف سے زیادہ صرف سود کی ادائیگی پر صرف کریگا۔ سٹیٹ بینک کی جانب سے مارچ میں پالیسی ریٹ 300 بیسز پوانٹس بڑھا کر شرح سود کو20 فیصد کر دیا ہے جس سے حکومت کیلئے کمرشل بینکوں سے مزید قرضہ لینا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ اس سال تک حکومت ہی نے کمرشل بینکوں سے سب سے زیادہ قرضے لے رکھے ہیں۔
ملک کے دفاعی اخراجات کے علاوہ سبسڈیز اور سوشل اخراجات بھی بڑا درد سر بن چکے ہیں۔الفا بیٹا کور ہیڈ آف ریسرچ خرم شہزاد نے کہا کہ روپے کی قدر میں حالیہ کمی کے بعد بیرونی قرضوں کا حجم مزید کوئی نئے قرضے لیے بغیر ہی بڑھ گیا ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں ملکی کرنسی کی قدر میں 10روپے کمی سے ملک پر قرضوں کا بوجھ 1.3 ٹریلین روپے بڑھ جاتا ہے۔ یوں جولائی 2022ء سے جنوری 2023ء تک قرضوں میں 55 ٹریلین روپے کا اضافہ ہوچکاہے۔ حکومت پاکستان کمرشل بینکوں سے اب نئے قرضے ٹی۔بلز اور پاکستان انویسٹمنٹ بانڈز (PIBs)کی فروخت سے حاصل کریگی لیکن آئی ایم ایف اپنے 6.5 ارب ڈالر کے قرضہ پروگرام کی بحالی کیلیے ایسے قرضوں کی ممانعت کر چکا ہے۔ حکومت نے ٹیکسوں میں اضافہ کرکے اپنی آمدنی بڑھائی ہے لیکن پبلک سیکٹر ترقیاتی پروگرام میں بھاری کٹوتی کے باوجود بجٹ اخراجات پر قابو نہیں پایا جا رہا۔

مزید پڑھیں:  بجلی قیمتوں میں کمی کا فیصلہ ،درخواست نیپرا میں جمع کرا دی گئی