کیا لو گے اس کے دام بتانا صحیح صحیح

چلو چھٹی ہوئی’ توشہ خانہ سے سستے داموں تحائف خریدنا غیر شرعی قرار دے دیا گیا۔ لاہور جامعہ نعیمیہ نے توشہ خانہ قانون کو غیر شرعی قرار دے کر فتوی جاری کر دیا ، فتویٰ میں کہا گیا ہے کہ توشہ خانہ سکیم میں کم قیمت پر اشیا خرید ناشرعی لحاظ سے جائز نہیں ہے ‘حکومتی عہدے پر فائز شخص کو ملا تحفہ ملکیت میں رکھنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تنبیہ فرمائی ہے۔ فتوے کے متن کے مطابق توشہ خانہ کے تحائف ملک و قوم کی امانت ہیں، تحائف کو عوامی فلاح و بہبود پر ہی خرچ ہونا چاہئے ، احادیث مبارکہ کے مطابق حکومتی عہدیداروں کو ملے تحائف ریاستی خزانے میں جمع ہوں گے، ان اشیا کو کم قیمت پر لینا شرعی لحاظ سے امانت میں خیانت کے مترادف ہے فتوے میں چیف جسٹس سے اپیل کی گئی ہے کہ تو شہ خانہ کے مروجہ قانون کو تبدیل کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ توشہ خانہ کے تحائف کے روایتی بندر بانٹ کے حوالے سے جو تفصیلات حکومت نے جاری کی ہیں ان کو پڑھ کر سر شرم سے جھکنے میں اگر کوئی کسر رہ گئی ہو تو اس کو تلاش کر لینا چاہیے کیونکہ جس قوم کے حکمران اور ان کے وابستگان اس قدر حریص ہوں کہ قیمتی تحفوں کو رکھتے ایک طرف، پائن ایپل(انناس)، کھجور، بیڈ شیٹس اور ٹی سیٹ تک نہ چھوڑیں، اس قوم کے کردار پر اگر دنیا بھر میں حرف گیری ہوتی ہو تو اسے کیسے روکا جا سکتا ہے۔ وہ جو سید محمد جعفری نے کہا تھانا کہ
جس کو سمجھے تھے انناس، وہ عورت نکلی
تو اب اس بات کی تحقیقات ہونی چاہئے کہ جو انناس (پائن ایپل) کے ڈبے تحفے میں ملے تھے ان پر کسی عورت کا گمان تو نہیں ہو گیا تھا اور اسے”سفید چمڑی”والی سمجھ کر لوگ اٹھا کرلے گئے ؟ کھجوریں اس تو خیر”برکت” والی ہوں گی اور اگر عجوہ ہوں تو ان کو بطور تبرک اٹھا لے جانا ضروری تھا کیونکہ عجوہ کے حوالے سے جو روایات ہمارے ہاں موجود ہیں ان کو سن اور
پڑھ کر کوئی”کافر”ہی ہو گا جو ان برکات سے کو سمیٹنے سے انکار کرے۔ البتہ بیڈ ٹیٹس اور ٹی سیٹ (بشرط یہ کہ سونے کا نہ ہو) کتنے مہنگے یا پھر نایاب ہوں گے جنہیں یہ لوگ باہر سے منگوانہ سکتے ہوں(پوری قیمت ادا کر نا مشکل ہو گا )جبکہ اس سونے کے کلاشنکوف کا ذکر بھی اس لسٹ میں ہے جو حکومت نے جاری کی ہے یا نہیں جسے ایک وزیر اعظم اٹھا کر لے گیا ہے۔ باقی کے وزرائے اعظم اور صدور بھی کہاں پیچھے رہے، یعنی بقول شخصے ”ایں ہمہ خانہ آفتاب است”والی صورتحال رہی ہے۔ ایک سابق وزیر اعظم نے تو یہ تاویل دیکر بھی قصہ تمام کر دیا کہ تحفے اسی شخصیت کو دیئے جاتے ہیں اس لئے تو شہ خانہ میں رکھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ جہاں تک موصوف کے ان خیالات عالیہ کا تعلق ہے تو ان سے کیا یہ سوال نہیں کیا جا سکتا کہ حضور اگر کوئی شخصیت کسی حکومتی یا سرکاری منصب پر نہ ہوتو انہیں کوئی”گھاس” ڈالنے تک بھی تیار نہیں ہوگا بلکہ کیوں ہوگا؟ یہ تو اسی منصب کے کمالات ہیں کہ جب ایسے عہدیدار باہر جاتے ہیں تبھی انہیں”تحفوں” کے قابل سمجھا جاتا ہے ‘ البتہ محولہ فتویٰ میں یہ جو علمائے کرام اور مفتیان عظام نے چیف جسٹس سے توشہ خانہ کے قوانین میں تبدیلی کی درخواست کی ہے تو پہلے یہ دیکھنا پڑے گا کہ کہیں اس”درخواست” پرعطار کے لڑکے والا قانون تولاگونہیں ہوگا یعنی ماضی میں ہی سہی اگر عدلیہ کے کچھ”محترم” لوگوں نے بھی توشہ خانہ کے تحائف پر ہاتھ صاف کیا ہو تو پھر کس برتے پر یہ درخواست یا مطالبہ جائز ٹھہر سکتا ہے ‘ دراصل توشہ خانہ ایک ایسا حمام ہے جس پر ”بے لباسی” ہی کی حکمرانی چھائی ہوئی ہے اور ضرورت تھی تواس بچے کی جس نے ”بادشاہ” کو ننگا کہہ کر ہلچل مچا دی تھی ‘ اگرچہ سرکاری طور پر تحائف کی ایک فہرست جاری کر دگئی ہے اور بادشاہ کے ”لباس” کی حقیقت واضح کرنے کی کوشش تو ضرور کی گئی ہے مگر بعض اداروں کے حوالے سے ”ہاتھ ہولا رکھنے” کی کوشش بھی شامل ہے جس پرتحریک انصاف نے مطالبہ کیا ہے کہ مکمل فہرست جاری کی جائے یعنی جن کو کچھ پہنانے کی کوشش کی گئی ہے ان کے نام بھی سامنے لائے جائیں ‘ اب حکومت کس حد تک اس اعتراض کو دور کرنے میں کامیاب ہوتی ہے بلکہ ہوتی بھی ہے یا نہیں ‘ تاہم یہ جو تحریک کے بعض رہنمائوں نے اس فہرست کے حوالے سے روایتی پروپیگنڈے کی آڑ میں بعض لوگوں پر الزامات لگانے شروع کر دیئے ہیں انہیں جھوٹ قرار دے کر متعلقہ شخصیات نے ایف آئی اے میں شکایت درج کرکے ا لزام عاید کرنے والوں کو اپنے ٹویٹس ڈیلیٹ کرنے پر مجبور کر دیا ہے ‘ اسی طرح اس فہرست میں کئی سابق صدور ‘ وزرائے اعظم ‘ وزیروں وغیرہ وغیرہ کے نام دیکھ کر تحریک والوں نے الٹے الزامات لگانا شروع کردیئے ہیں کہ یہ ہمیں توشہ خانہ ”لوٹنے” کا الزام دیتے تھے مگر یہ خود چور نکل آئے وغیرہ وغیرہ اس پر مخالفین نے اپنے جوابی وار میں واضح کر دیا ہے کہ توشہ خانہ سے تحائف خرید کر ساتھ لے جانے پر اعتراض نہیں کیا بلکہ ان تحائف کو سستے داموں خرید کر مارکیٹ میں فروخت کرنا مبینہ طور پر ”لوٹ مار” کے زمرے میں آتا ہے بلکہ ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ تحفے فروخت پہلے کئے گئے اور سرکاری خزانے میں رقوم بعد میں جمع کرائی گئیں ‘ اس کے ساتھ بازار میں فروخت کرنے کے حوالے سے جو رسیدیں مہیا کی گئیں وہ بھی جعلی ثابت ہوئیں کیونکہ جن دکانداروں پر فروخت کے ”الزامات” لگائے گئے انہوں نے اس قسم کی سودے بازی سے انکار کیا ‘ دوسری جانب دوبئی سے اصل خریداروں کی مکمل معلومات بھی سامنے آچکی ہیں اور یہی وہ مسئلہ ہے جس کا توڑ”مبینہ روایتی جھوٹے” پروپیگنڈے سے نہیں کیا جاسکتا۔
دل لے کے میرا ہاتھ میں کہتے ہیں مجھ سے وہ
کیا لوگے اس کے دام؟ بتانا صحیح صحیح
اب یہ مطالبات بھی سامنے آرہے ہیں کہ پہلے والا ریکارڈ بھی پیش کیا جائے اور ان تمام لوگوں کے نام بھی سامنے لائے جائیں جنہیں عرف عام میں انگریزی زبان میں”ان ٹچ ایبل” کہتے ہیں سو دیکھتے ہیں کہ اس مطالبے کی کتنی پذیرائی ہوتی ہے ‘ تاہم اب یہ معاملہ اس قدرگھمبیر ہوچلا ہے کہ جامعہ نعیمیہ کے مفتیان کرام کے فتوے پرعمل درآمد کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے ‘ ویسے سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر ریاست مدینہ میں قائم بیت المال میں ہر چیز جمع کرائی جا سکتی تھی اور مال غنیمت پربھی کی نگاہ رکھتے ہوئے خلیفہ وقت سے ان کے درازی قد کی وجہ سے ایک چادر سے زیادہ کپڑے کا لباس بنوانے پربھی مجمع کے سامنے باز پرس کی جا سکتی تھی تو آج کے ”اعلیٰ طبقات” سے بازپرس کیوں نہیں کی جا سکتی؟ بہتر ہے کہ یہ جو تین سو ڈالر کے تحفے لے جانے کی اجازت دے دی گئی ہے اس کو بھی ختم کیا جائے کہ سرکاری تحفہ صرف توشہ خانہ کی ملکیت ہے یاپھرہر سال ایسے تحفوں کی پوری قیمت ظاہر کرتے ہوئے فہرست جاری کرکے کھلی نیلامی منعقد کی جائے اور جولوگ اصل قیمت سے بھی زیادہ ادا کریں ان کے ہاتھ فروخت کردیئے جائیں تاکہ ملکی خزانے میں معقول ر قم اس کے ‘ بقول اتباف ابرک
نفع نقصان کی باتیں نہیں جچتی ہم کو
ہم نے کب یار ترے ساتھ تجارت کی ہے

مزید پڑھیں:  چار سنگین تر ہوتے مسائل