مشرق وسطیٰ کے بعد یوکرین اورکشمیر؟

امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے دو دیرینہ حریفوں سعودی عرب اور ایران کے درمیان بقائے باہمی کا معاہدہ کرانے کے بعد چینی صدر ژی جن پنگ یوکرین اور روس کے درمیان معاملات طے کرانے کا مشن شروع کرنے والے ہیں ۔صدر ژی جن پنگ جنگ کے بعد پہلی بار یوکرینی صدر مسٹر زلنسکی کے ساتھ براہ راست بات چیت کریں گے ۔اگر دونوں میں براہ راست بات چیت ہوتی ہے تویہ ایک غیر معمولی قدم ہوگا۔وال سٹریٹ جرنل نے چینی صدر کے لئے گلوبل پاور بروکر کے الفاظ استعمال کئے ہیں گویا کہ چینی صدر امن عالم اور عالمی امن کو متاثر کرنے والے تنازعات میں ایک ضامن کے طور پر کام کرنا چاہتے ہیں۔چینی صدر اگلے ہفتے ماسکو کا دورہ کررہے ہیں جس کے بعد وہ یوکرینی صدر زلنسکی سے براہ راست رابطہ کریں گے۔اخبار کے مطابق اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ مشرق وسطیٰ کے بعد بیجنگ کے عالمی طور پر اُبھرنے کا ایک اور اہم مرحلہ ہوگا۔اُنہتر سالہ صدر ژی مغربی اور بھارتی میڈیا کی طرف سے بہت سے افواہوں کے درمیان ہی تیسری بار عوامی جمہوریہ چین کے صدر منتخب ہوئے ہیں ۔افواہوں کا عالم یہ تھا کہ صدر ژی کے خلاف بغاوت اور ان کی نظر بندی کی باتیں بھی کی جارہی تھیں ۔انہی افواہوں اور بھارت اور مغرب کے میڈیا کی اُڑائی گئی دھول کے درمیان ہی چینی صدر ایک روز دنیا کے سامنے نمودار ہو کر ان تمام قیاس آرائیوں کو ناکام بنا چکے تھے۔صدر ژی عالمی تنازعات میں امریکہ کے سٹائل کو سردجنگ کی پالیسی قرار دے چکے ہیں اور طاقت کے استعمال اور براہ راست کودنے کی اس پالیسی کی جگہ تنازعات کے فریقوں پر تجارت تعلقات کے ذریعے دبائو ڈالنے کی پالیسی پر یقین رکھتے ہیں۔اب چینی صدر کی طرف سے روسی صدر پیوٹن سے ملاقات اور اس کے بعد یوکرینی صدر کے ساتھ رابطے کی خبروں پر امریکہ کی طرف سے بھی مثبت ردعمل کا اظہار کیا گیا ہے۔چینی صدر نئے مینڈیٹ کے ساتھ اب زیادہ پُر اعتماد ہو کر پیچیدہ عالمی مسائل کے حل میں ایک سہولت کار اور ضامن کے طور اُبھر رہے ہیں۔اس مشن میں چین فریقین میں کسی ایک طرف کا براہ راست فریق بننے کی بجائے دونوں کے درمیان تجارتی تعلقات اور دونوں سے اپنے تجارتی تعلقات کو استعمال کرنے کی حکمت عملی پر چل رہا ہے ۔امریکہ کا تنازعات کے حل میں سٹائل یہ رہا ہے کہ وہ لٹھ لے کر کسی ایک فریق کی حمایت کرتا ہے ۔مشرق وسطیٰ میں اسرائیل اور فلسطین میں
امریکہ کا یہی رویہ رہا ۔اب چین اگر سعودی عرب اور ایران جیسے حریفوں کو قریب لانے کے بعد یوکرین کے بحران کو بھی اپنی غیر جانبدارانہ پالیسی کی بنیاد پر حل کرنے کی طرف بڑھتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ چین کے قدم یہاں رکنے والے نہیں ۔عین ممکن ہے کہ چین فلسطین اور اسرائیل کے درمیان بھی کسی دوریاستی حل کی کوئی راہ نکالنے کی کوشش کرے ۔چین کی اس عالمی ڈپلومیسی کے سفر میں ایک پیچیدہ اور مشکل ترین مقام اس کے ہمسایہ میں تنازعہ کشمیر ہے ۔یہ دنیا کا واحد مسئلہ جہاں چین خود بھی ایک خاموش فریق ہے۔ایک تو یہ کہ چین کی سرحدیں دو ہمسایہ ایٹمی طاقتوں پاکستان اور بھارت سے ملتی ہیں اور ساتھ ہی ان دونوں ملکوں کے درمیان وجہ تنازعہ یعنی کشمیر کے ساتھ بھی چین کی سرحد ملتی ہے اور خود اس متنازعہ ریاست کا وسیع علاقہ تاتصفیہ ایک معاہدہ کے تحت چین کے کنٹرول میں ہے ۔یہ وہ پوزیشن ہے جو چین کے لئے اپنی دہلیز اور گھر میں موجود مسئلے کو دنیا کے دوسرے مسائل سے قطعی جدا کرتی ہے۔پانچ اگست 2019 کو بھارت نے یک طرفہ طور پر کشمیر مسئلے کی بساط لپیٹ کر چین کو بھی للکارا تھا ۔اس کا نتیجہ یہ تھا کہ چین اور بھارت کے درمیان دبے ہوئے سرحدی آتش فشاں نے گلوان وادی اور پنگانگ جھیل میں اچانک تصادم کا لاوا اُگلنا شروع کیا تھا اور آج تک یہ مسئلہ اصل روح اور جذبے سے حل نہیں ہو سکا بلکہ مذاکرات کے ڈیڑھ درجن ادوار بھی بے نتیجہ ہو کر رہ گئے ہیں۔پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کلی طور پر منجمد ہو کر رہ گئے ہیں اور دو نوں ممالک آگے بڑھنے سے انکاری ہیں ۔پاکستان نے پانچ اگست کے بعد جہاں لکیر کھینچی تھی وہ وہیں کھڑا اور نریندر مودی تو اپنی شرائط کے بغیر اب پاکستان کے ساتھ بات کرنے کو تیار ہی نہیں۔چین بھارت کے ساتھ گرم سرحدی محاذ کے باوجود تجارت کا دروازہ کھلا رکھے ہوئے ہے ۔ایک طرف گلوان وادی میں چینی فوجی بھارتی فوجیوں کی
تاربندھے تین فٹ کے ڈنڈوں اور مکوں اور گھونسوں سے تواضع بھی کر رہے تھے تو دوسری طرف چینی مصنوعات کے کنٹینر بھی بھارت کی حدود میں خراماں خراماں داخل ہورہے تھے۔تنازعے کی سنگینی بڑھنے کے باوجود تجارت کا گراف کم ہونے کی بجائے بڑھتا ہی جا رہا تھا ۔اب چین بھارت کا بڑا تجارتی شراکت دار ہے تو سی پیک کی سرمایہ کاری اور دوسری امداد اور دفاعی تعاون کے ذریعے پاکستان کابیک وقت تجارتی اور تزویراتی شراکت دار بھی ہے ۔مشرق وسطیٰ اور یوکرین میں کامیابی کے بعد چین کا اپنے پہلو کی طرف متوجہ ہونا بعید از قیاس نہیں۔چین اپنے سٹائل کے تحت یعنی تجارتی اصول کے بروئے کار لاتے ہوئے پاکستان اور بھارت کو سہولت کار ی کی پیشکش کر سکتا ہے ۔ایسے میں جب امریکہ کی طرف سے بہت کھلے لفظوں میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات کے معاملے میں امریکہ بے بس ہے امریکہ صرف اسی صورت اپنا کردار ادا کرسکتا ہے جب دونوں ملک مل کر اس سے کسی کردار کی درخواست کریں گے۔یہ دوسرے لفظوں میں امریکہ کا اظہار بے بسی ہی تھا کیونکہ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ نریندر مودی اب امریکہ کے قابو میں بھی نہیں رہا ۔ایسے میں چین کے کردار کے لئے خود امریکہ نے ہی گنجائش پیدا کرنا شروع کی ہے۔چین کسی حد تک دونوں ملکوں پر اثر رسوخ قائم کرچکا ہے اور اب اس کی کوشش اور خواہش ہو گی کہ اس اثر کو جنوبی ایشیا کے روایتی حریفوں کے درمیان سب سے اُلجھے ہوئے مسئلے کے حل کی خاطر استعمال کرے ۔اس میں ایک حل تو وہ بھی ہے جس کا اشارہ محبوبہ مفتی کئی برس قبل دی چکی ہیں کہ کشمیری بھی سی پیک سے استفادہ کرنے کی خواہش رکھتے ہیں ۔اس جملے کی اپنی گہرائی ہے ۔محبوبہ مفتی دوہزار کی دہائی میںامریکہ کی حمایت اور امداد سے پاکستان اور بھارت کو قریب لانے اور مشرف فارمولے کے تحت آگے بڑھنے کی کوششوں کی کشمیری فریق رہی ہیں۔اس فارمولے کو سی پیک سے استفادہ کرنے سے جوڑا جائے تواس میں امریکہ اور چین دونوں کی خواہشات کا مجموعہ بنتا ہے ۔چین اگر اس معاملے میں دخیل ہوتا ہے تو وہ اپنے سٹائل یعنی تجارتی انداز کو ہی آگے بڑھائے گاشرط یہ ہے کہ بھارت کے ساتھ اس کی کوئی غیر معمولی کشیدگی شروع نہ ہو۔اس تجارتی سٹائل حل میں پاکستان کو کیا موقف اپنانا ہے یہ ایک اہم سوال ہے ؟چین کی ترغیب اور دبائو کو کشمیریوں کی قربانیوں سے ہم آہنگ رکھناپاکستان کی خارجہ پالیسی کو درپیش ایک بڑا چیلنج ہوگا۔

مزید دیکھیں :   امرت پال سنگھ ایک اور بھنڈرانوالہ؟