وطن کی مٹی گواہ رہنا

گزشتہ روز لاہور میں واہگہ بارڈر پر پرچم اتارنے کی تقریب میں فوجی جوانوں کی پریڈ پر پاکستانی عوام کی جانب سے نعرہ ہائے تکبیر ، پاکستان زندہ اباد اور پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الااللہ کے فلک بوس نعروں سے فضا یوں گونج رہی تھی جیسے ہمارے شاہین صفت فوجی جوان سامنے بیٹھے ہوئے بھارتی عوام پر ہلہ بولنے کے لئے اپنا لہو گرمارہی ہوں۔پاکستانی عوام نعروں اور تالیوں کی گونج میں اپنے فوجی جوانوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ملی نغموں کے ساتھ ساتھ ڈھول کی تاپ پراپنے جذبہ حب الوطنی کا اظہار کررہی تھیں اور بچے ہاتھوں میں ملک کا جھنڈا تھامے اور کئی ایک قومی پرچم کی شبیہ کو اپنے چہرے پر اتارے قومی فخر اور غرور کا اظہار کررہے تھے۔یوں لگ رہاتھا جیسے ہمارے دراز قامت جوان ایک ہی آن میں بھارتی جوانوں کو چت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔گو کہ یہ ایک رسمی کارروائی ہے اور ہر روز واہگہ کے مقام پر پاک بھارت سرحد پر ہواکرتی ہے لیکن اپنے اس قومی خدمت اور دینی فریضے کا عملی اظہار یہ نو جوان میدان جنگ میں بھی مسلسل کرتے آرہے ہیں ، پاکستان اور بھارت کے درمیان لڑی گئی جنگیں اسکا منہ بولتا ثبوت ہیں۔لاہور ہی کے آرمی میوزیم میں ان جوانوں کے ناموں اور تصویروں کے ساتھ انکی شجاعت اور عزم وحوصلوں کی داستانیں رقم ہیں۔ انکے ساتھ جڑے ایک گیلری میں قیام پاکستان کے دوران ہندوستان سے ہجرت کرنے والے ان مہاجرین کی دردناک اور رونگٹے کھڑے کرنیوالی کہانیاں ہمیں تاریخ کے ان دریچوں میں لے جانے کی ایک سعی ہے جہاں سے وطن عزیز کے لئے ہمارے اسلاف کی قربانیوں کا ایک جھلک نئی نسل کے اذہان میں تازہ ہو۔اسی گیلری میں دیکھا جاسکتا ہے کہ پٹھے پرانے کپڑوں میں ملبوس ہمارے اباو اجداد کس طرح اپنے املاک وجائئدادوں کو چھوڑ کربے سروسامانی کی حالت میں وطن کی محبت اور دین کا جذبہ لئے سرحد پار کرگئے۔کتنی لاشیں گریں، کتنے بچے یتیم اور کتنی عورتوں کے سہاگ اجڑگئے، کتنے لوگ بے گھر ہوگئے لیکن ان سب کا جذبہ محرکہ ایک ہی تھا کہ ہم اسلام کے نام پر حاصل کئے گئے زمین کے ایک خطے پر اپنے دین کے بتائے ہوئے زرین اصولوں کے مطابق زندگی گزاریں گے اور ایک آزاد ماحول میں سانس لیں گے۔لیکن آج ہم جس پاکستان میں رہ رہے ہیں کیا اس پاکستان میں وہ کچھ نظر آرہا ہے جس کے لئے ہمارے اسلاف نے اپنے خون کے نذرانے پیش کئے۔واہگہ بارڈر پر مونچھوں کو تائو دیتے ہوئے اپنے چند دراز قامت فوجی جوانوں کے ذریعے ہم سامنے بیٹھے ہوئے اپنے عوام کو کچھ دیر کے لئے دلاسہ تو دے سکتے ہیں لیکن کیا عملی میدان میں بھی ہم بھارت کے اقتصادی اور فوجی قوت کا بھرپور جواب دینے کی پوزیشن میں ہیں۔انیس سو سینتالیس میں دونوں قوموں کو انگریزوں سے آزادی ملی لیکن پچھتر سال بعد بھی ہم تاریخ کے ایک ایسے دوراہے پر کھڑے ہیں جہاں سے ہم اپنے منزل مقصود تک پہنچنے کے لئے کسی سمت کے تعین کا انتظار کئے بیٹھے ہیں۔نہ کوئی منزل ہے اور نہ ہی کوئی راستہ دکھائی دے رہا ہے۔وقت کی بھول بھلیوں میں گم تاریکی کے تیر چلاتے ہم کبھی ادھر دوڑرہے ہیں اور کبھی ادھر اور اس دوران دنیا بڑی تیزی سے آگے نکلتی جارہی ہے ۔ہماری قوم ابھی تک اس زعم میں مبتلا ہے کہ ہم کسی بھی وقت بھارت کو ناکوں چنے چبواسکتے ہیں اور ہم دشمن کے دانت
کھٹے کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمیں اس خوش فہمی سے نکل کر حقیقت کی دنیا میں آنا ہوگا۔ ہندوستان بلاشبہ دنیا کی پانچویں بڑی اقتصادی قوت ہے جسکے زرمبادلہ کے ذخائر چھ سو ارب ڈالر سے تجاوز کرچکے ہیں جبکہ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر گھٹ کر صرف چار ارب ڈالر رہ چکے ہیں۔ بھارت دنیا کی بڑی فوجی اور نیوکلیائی قوت ہے جبکہ ہمیں اپنی دفاعی صلاحیتوں کو بڑھانے کے لئے بھی دنیا کے مالیاتی اداروں سے قرض لینا پڑتا ہے۔ ہم ایک نیوکلیائی طاقت ہوکر بھی جب ایک ہاتھ میں ایٹم بم اور دوسرے ہاتھ میں بھیک کا کاسہ لئے دنیا کے خوشحال ملکوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے ہیں تو ہمارے قومی وقار، غرور اور عزت نفس کی کیا قیمت رہ جاتی ہے۔ہم کب تک اپنی قوم سے جھوٹ بولتے رہیں گے۔ایک روشن صبح کی امید دے دیکر ہم کب تک اپنی قوم کو جھوٹے دلاسے دیتے رہیں گے۔قوم قربانیاں دے دے کر تھک ہار گئی ہے اب اس میں مزید برداشت کا مادہ ناپید ہوتا جارہا ہے۔ اب وقت ہے کہ اسکے راہنما قربانی کے لئے تیار ہوجائیں۔ہمارے سیاسی مسیحا دور دور سے عوام کی بے بسی کا تماشہ دیکھتے ہوئے دل ہی دل میں انکا مذاق اڑاتے ہونگے کہ ان نادانوں کو کب ہوش آئیگا۔جب بھی ملک اور قوم پر مشکل وقت آتا ہے، عوام کو قربانی کے لئے کہا جاتا ہے۔ ایک طرف غربت و افلاس کے مارے بے چارے عوام پر مہنگائی کے پے درپے وار کئے جارہے ہیں اور دوسری طرف انکے سیاسی مسیحاوں کے وی آئی پی پرو ٹوکولز، بیرونی دوروں اور عیاشیوں پر اٹھنے والے اخراجات روز بروز بڑھتے جارہے ہیں۔وفاقی کابینہ کا حجم پچاسی تک پہنچ گیا ہے۔ لندن میں ایک ہزار کروڑ کے مکان میں بیٹھے ہمارے سیاسی مسیحا کو آٹے دال کی بھاو کا
پتہ ہے نہ دبئی کے محل اور بنی گالہ کے تین سو ستر کنال کے مکین کوعوام کی مشکلات کا احساس ہے۔اقتدار کی جنگ میں مصروف ان سیاسی مسیحاوں کو صرف اتنا پتہ ہے کہ ان نادانوں کے سر پر پاوں رکھ کر اقتدار کے ایوانوں تک کیسے پہنچا جائے۔اللہ تعالی کا کھلا اعلان ہے کہ وہ اس قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلے گا جب تک اس قوم کو اپنی حالت کو خود بدلنے کا خیال نہ آجائے۔پچھلے پچھتر سال میں جو ہوا سو ہوا، اب وقت ہے کہ عوام آٹھ کھڑے ہوں اور موجودہ فرسودہ سیاسی نطام کے خلاف پوری قوت کے ساتھ علم بغاوت اٹھالیں اور اس نظام کے خلاف تیشہ بن کر اسکی جڑوں کو اکھاڑ پھینکیں۔عوام کو اس بات کا ادراک ہونا چاہئے کہ انہی ملک کے کرتا دھرتاوں کا اس ملک سے کوئی لینا دینا نہیں، ان لوگوں کا پیسہ، ان کی جائئدادیں سب باہر ہیں۔ انکے بچے باہر پڑھتے ہیں، انکے کاروبار ملک سے باہر ہیں، انکا علاج باہر کے ملکوں میں ہوتا ہے اور وہیں بیٹھ کر ملک کا نظام حکومت چلاتے ہیں۔جب بھی اس پر مشکل وقت پڑے گا یہ لوگ اپنا بوریا بستر سمیٹ کو یوں ہوا ہوجائیں گے جیسے وہ کبھی یہاں تھے ہی نہیں۔اس بات کے لئے عوامی سطح پر شعور کو اجاگر کرنا ہوگا۔ نسل در نسل خاندانی سیاست کے اس بھنور میں پھنسے اور ڈوبتے عوام کو نکلنے کے لئے صرف اور صرف اجتماعی قومی شعور کا سہارا چاہئے ہوگا۔یہ انتخابات کا سال ہے۔وقت اور حالات کی سنگینی کا تقاضا ہے کہ ایماندار، بے لوث اور مخلص قیادت کو سامنے لایا جائے تاکہ وہ قومی اور ملکی مفاد کو ذاتی مفادات اور اناپر مقدم رکھتے ہوئے اس ملک کی کشتی کو بیچ بھنور سے نکال کر پار لگادیں۔اس کے لئے عوام کو چاہئے کہ وہ شخصیت پرستی، برادری اور ذاتی تعلقات کی بنیاد پر نہیں بلکہ اس ملک و قوم سے وفاداری، خلوص اورنیک نیتی کی بنیاد پرجذبہ ایمانی کی قوت سے سرشار افراد کا انتخاب کریں جو اس ملک کے روشن مستقبل کی خاطراپنے تن من دھن کی بازی لگانے کا ارادہ اور حوصلہ رکھتے ہوں۔

مزید پڑھیں:  سلامتی کونسل کی قراردادکے باوجوداسرائیل کی ہٹ دھرمی