مشرقیات

اپنی ایک آنکھ کا ڈھیلا اپنی ہتھیلی پر رکھ کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ۔ یا رسول اللہ ! دشمن کے وار سے یہ آنکھ نکل آئی۔ یہ حنین کی لڑائی کا واقعہ ہے ۔ یہ عہد نبویۖ کی وہ لڑائی ہے جس میں دشمن نے جم کر مسلمانوں کا مقابلہ کیا ۔ بنو ثقیف اپنی بے مثال تیراندازی کے لئے سارے عرب میں مشہور تھے۔ وہی حنین میں مسلمانوں کے مد مقابل تھے جس طرح اس لڑائی میں انہوں نے تیراندازی کی اس نے ایک موقع پر مسلمانوں کے قدم اکھاڑدیئے تھے لیکن اللہ کے رسولۖ کی ہمت آفریں قیادت نے جنگ کا پانسہ پلٹ دیا۔ ان مجاہدوں میں جنہوں نے لڑائی کا رخ پلٹ دیا تھا۔ ایک یہ اللہ کے بندے بھی تھے۔درد کی شدت برداشت سے باہر تھی لیکن پھر بھی خوش تھے کہ اسلام کے لئے جسم کا ایک عضو کام آیا ۔ مسلمان تو میدان جہاد میں شہادت کی تمنا لے کر نکلتا ہے ۔ اس لئے اس راہ میں جو نقصان بھی ہو ایک مجاہد کے لئے وہ کچھ نہیں ۔ اس مجاہد کی ہمت و شجاعت کو دیکھ کر اللہ کے رسولۖ نے ارشاد فرمایا اگر تم چاہو تو میں آنکھ کے اس ڈھیلے کو اس کی جگہ رکھ دوں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کروں کہ اسے جما دے، امید ہے وہ میری دعا قبول فرمائے گا یا پھر تم صبر کرو کہ آخرت میں اللہ تعالی تمہیں اس کا بہترین اجر عطا فرمائے۔
اسلام کی تعلیم شروع ہوئی تو صاف لفظوں میں بتایا گیا کہ ایک دن حساب کا آنے والا ہے جو اچھے اور برے بدلے کا دن ہے ۔ اس لئے دنیا میں جب بھی کوئی کام کرو یہ بات ذہن میں رکھو کہ روز حساب اس کی پوچھ ہوگی ! اس عقیدے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی محاسبے کے خیال کی وجہ سے سنبھلا ر ہے اور بری زندگی گزارے جس میں آخرت پر پورا یقین نہیں ہوتا وہ منافقت کی زندگی گزارتے ہیں۔ کہنے کو مسلمان لیکن عیاشی ، بد معاشی ‘شراب نوشی ‘ رشوت خوری اور دوسری گمراہیوں میں خوب دل کھول کے پڑے رہتے ہیں۔ اب کوئی ان سے پوچھے کہ یوم آخرت پر ایمان بھی رکھتے ہو اور حساب سے بے پروا بھی ہو۔ یہ کہاں کی عقلمندی ہے ؟ تو ایسے لوگوں کے پاس یعنی میرے اور آپ کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ! وہ اللہ کا نیک بندہ حنین کا مجاہد جسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کئی نسبتیں تھیں ۔ آخرت پر اس درجہ پکا یقین رکھتا تھا کہ اللہ کے رسول کی زبان مبارک سے آخرت کے صلے کی بات سن کر اس اللہ کے سپاہی نے آنکھ کا ڈھیلا میدان جنگ میں پھینک دیا عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! مجھے اس دنیا کی روشن آنکھ سے کہیں زیادہ آخرت کا صلہ مرغوب ہے عہد صدیقی میں یرموک کی لڑائی شروع ہوئی تو یہ نیک دل ۔ جری اور قوی صحابی رسول اللہ وہاں بھی موجود تھے ۔ ایک آنکھ سے میدان جنگ میں داد شجاعت دیتے پھر رہے تھے کہ استیعاب میں ہے کہ اس لڑائی میں دشمن کے وار سے دوسری آنکھ بھی جاتی رہی ۔جس بے جگری سے وہ یرموک کے میدان میں دشمنوں پر ہلہ بولتے رہے اور جس طرح مسلمانوں کو انہوں نے بڑہاوے دیتے اور ان کی ہمت بندھائی اس کا نتیجہ یہ نکلاکہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو کامیابی سے ہمکنار فرمایا۔اس لڑائی کے کوئی بیس برس بعد تک وہ زندہ رہے بینائی سے محروم ہوگئے تھے لیکن بڑے خوش رہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دونوں آنکھیں اسلام کی سرفرازی کے لئے قبول کر لئے اکیس سال تک انہوں نے اسلام کی مخالفت کی لیکن جب اسلام قبول کر لیا تو اس کے فدائی بن گئے اسلام کے یہ فدائی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خسر محترم اور قریش کے سب سے بڑے سردار تھے قیصر و کسریٰ ان کے ملنے والے اور ان کی دوستی کے قدرداں تھے آنحضرتۖ نے انہیں نجران کا گورنر بھی مقرر کیا تھا فتح مکہ کے موقع پر اللہ کے رسول نے ان کے مکان کو دارالامن قرار دیا تھا تھوڑی دیر ہی کے لئے سہی یہ بہت بڑی سعادت تھی جو ان کے حصے میں آئی یہ فدائی یہ مجاہد یہ جلیل القدر صحابی تھے ام المومنین حضرت ام حبیبہ کے والد ماجد حضرت ابوسفیان تھے۔

مزید پڑھیں:  ایک اور پاکستانی کی ٹارگٹ کلنگ