بحران سے نکلنے کا راستہ

ملک میں جاری حالات میں بحران ہی بحران دکھائی دیتا ہے لیکن تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے دوسری مرتبہ یہ بات دہرائی ہے کہ وہ ملکی مفاد میں کسی سے بھی بات کرنے کو تیار ہیں یہ درست ہے کہ اس عمل کے سب سے بڑے منکر بھی وہ خود ہی تھے مگر اب جبکہ ان کوا حساس ہو گیا ہے یا پھر زمانے نے سمجھا دیا تو ان کی اس پیشکش کو سنجیدگی سے لینے اور بات چیت کا عمل شروع کرنے کی ضرورت ہے دیکھا جائے تو مسائل حل کرنے کے لئے مذاکرات کی میز پر آنے میں جتنی دیر لگتی ہے، اتنے ہی معاملات الجھتے چلے جاتے ہیں، جبکہ خرابی بسیار کے بعد بھی آخری فیصلوں کی طرف بڑھنے کے لئے بات چیت ہی ناگزیر ہوتی ہے۔کسی بھی ریاست میں ایک یازیادہ موضوعات پر اختلافات جیسے بھی ہوں افہام و تفہیم کے سوا ان کے حل کی کوئی صورت نہیں۔ اب موجودہ برسراقتدار اتحادی حکومت کا نقطہ نظر مختلف ہے جاری ملکی حالات اور مسائل سے نکلنے کامکالمہ کے بغیر کوئی صورت نہیں تمام ملکی سیاسی جماعتوں کا بھی مفاد اسی میں ہے کہ سیاست کو ذاتی دشمنی بنانے کی بجائے سیاسی اور جمہوری طریقے ا ختیار کئے جائیں۔ سیکورٹی و معاشی چیلنجوں سے ملک کو نکلنے کا وقت نہ دیا گیا تو افراتفری کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات کے لئے بالترتیب 30اپریل اور 25مئی کی تاریخیں مقرر ہو چکی ہیں مگر مختلف وجوہ کی بنا پر کوئی ایسا وفاقی و صوبائی ادارہ نہیں جو مذکورہ تاریخوں پر الیکشن کے انعقادپر تیار ہو۔گورنر کے پی، چیف سیکرٹری پنجاب اور آئی جی پنجاب ، محکمہ دفاع کے اعلی حکام کی جانب سے الیکشن کمیشن کو اس باب میں بریفنگز دی گئی ہیں جس سے انتخابی ذمہ داریوں کے لئے افرادی طاقت کی فراہمی سے معذرت کا پہلو نمایاں ہے۔ یہ سوالات بھی سامنے آرہے ہیں کہ دو صوبوںمیں الیکشن پرانی مردم شماری اور پرانی حلقہ بندیوں پر ہونے کے بعد جب آئین کے مطابق قومی و دیگر اسمبلیوں کے انتخابات ہوں گے تو معاملات کی کیا صورت ہوگی بہرحال۔ملک کے سارے سیاستدانوں کواب اپنے طرز عمل میں انا اور ضد کی بجائے سیاسی کلچر کے تقاضوں کو متعارف کرانے اور مل بیٹھ کر انتخابات سمیت تمام مسائل پر مشاورت اور مفاہمت سے بات چیت کرنے کی ضرورت ہے ایسا نہ ہو تو پھر مسائل لاینحل صورت دیگر مفاہمت اور مسائل سے نکلنے کی منز ل دور نہیں۔

مزید پڑھیں:  پلاسٹک بیگزکامسئلہ