دو ٹوک یقین دہانی

وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان کا ایٹمی اور میزائل پروگرام ایک قومی اثاثہ ہے جس کی ریاست غیرت مندی سے حفاظت کرنی ہے انہوں نے کہا کہ یہ مکمل پروگرام کلی طور پر محفوظ، فول پروف اور ہردبائو سے آزاد ہے ۔بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے ڈائریکٹر جنرل رافیل ماریانو گروسی کے دورہ پاکستان کے تناظر میں پرامن ایٹمی پروگرام کو منفی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ وزیراعظم نے واضح کیا کہ پاکستان کا ایٹمی اور میزائل پروگرام ایک قومی اثاثہ ہے جس کی ریاست غیرت مندی سے حفاظت کرتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ پروگرام اس مقصد کو ہر طرح سے پورا کرتا ہے جس کے لیے یہ صلاحیت حاصل کی گئی ہے۔قبل ازیں وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے سینٹ کی گولڈن جوبلی کی تقریب کے حوالے سے منعقدہ ایوان کی ہول کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ نیوکلیئر یا میزائل پروگرام پر کوئی بھی سمجھوتا نہیں کرے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں قومی مفاد کا تحفظ کرنا ہے، کسی کو حق نہیں کہ پاکستان کو بتائے کہ وہ کس رینج کے میزائل یا ایٹمی ہتھیار رکھے ۔ایک ایسے وقت میں جب آئی ایم ایف سے معاہدے بارے اور امریکی دبائو پر مختلف قسم کی چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں وزیر اعظم اور وزیر خزانہ کا بیاں سنجیدگی کا حامل معاملہ ہے اس پر تو یقین ہے کہ کوئی بھی حکومت اس حد تک مصلحت پسند نہیں ہو سکتی اور نہ ہی سمجھوتہ کر سکتی ہے جس کے خدشات ظاہر کئے جارہے ہیں لیکن کہیں نہ کہیں سے کچھ نہ کچھ دبائو ضرور ہے قبل ازیں سابق چیئرمین سینٹ اور موجودہ سینیٹر میاں رضا ربانی نے بیان دیا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کو ایسا کردار ادا کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے جو قومی مفادات کے خلاف ہو، بتایا جائے کیا ہمارے ایٹمی اثاثے دبائو میں ہیں؟ ان کا کہنا تھا کہ ایسالگتا ہے کہ پاکستان کو ایسا کردار ادا کرنے کیلئے مجبور کیا جا رہا ہے جو کہ قومی اور اسٹریٹجک مفادات کے خلاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوام کو یہ جاننے کا حق ہے کہ کیا ہمارے ایٹمی اثاثے دبائو میں ہیں؟ چین کے ساتھ ہمارے اسٹریٹجک تعلقات خطرے میں ہیں یا ہمیں خطے میں ایسا کردار ادا کرنے کیلئے کہا جا رہا ہے جو سامراجی طاقت کی فوجی موجودگی کو آسان بنائے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ سوالات مشترکہ پارلیمنٹ کے فلور پر وزیر اعظم کے پالیسی بیان کے متقاضی ہیں۔وزیر اعظم اور وزیر خزانہ کے بیانات سے ان خدشات کی کسی حد تک تصدیق تو ہو گئی لیکن اطمینان کا حامل امر یہ ہے کہ وزیر اعظم نے اس حوالے سے ایوان میں واضح بیان دے کر ان خدشات کا ازالہ کر دیا ہے پاکستان پر اس طرح کے دبائو آتے رہے ہیں اور آئندہ بھی اس کے امکانات ہیں۔ بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں حساب برابر کرنے کا موقع آیا تو پوری دنیا نے مل کر پاکستان کو ایٹمی دھماکوں سے روکنے کی سعی کی اس کے باوجود کہ ہمسایہ ملک بھارت نے ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان پر دبائو بہت بڑھا دیا تھا خود پاکستانی عوام کی جانب سے بھی حکومت پر دبائو تھا کہ اگر ملک کے پاس صلاحیت موجود ہے تو اس کا ضرور اظہار کیا جائے ۔ بہرحال مسکت جواب سامنے آیاتو دنیا نے پاکستان پر معاشی پابندیاں لگادیں اب بھی اگرچہ واضح طور پر آئی ایم ایف معاہدے میںاس طرح کے عوامل پر بات نہیں ہوسکتی لیکن لگتاہے کہ بباطن اس بارے دبائو کی کیفیت رہی ۔ وزیر خزانہ کے بیان سے صاف واضح ہے کہ ہمارے میزائل رینج کم کرنے کی کوئی بات ضرور کی گئی جس کا ایوان میں واضح جواب دے دیاگیا۔ اگر دیکھا جائے تو یہ ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات ہی کا شاخسانہ ہے پاکستان کو معاشی مشکلات سے نکلنے کے لئے جس معاشی پروگرام کی ضرورت ہے اب نوبت یہ آگئی ہے کہ عوام پر جس قدر دبائو ڈالنے کی گنجائش تھی اس سے دریغ نہیں کیاگیا اب خدانخواستہ یہ عناصر ہماری دفاعی ضروریات کے بھی درپے ہیں جب نوبت اس حد تک آگئی ہے تو قوم اور خاص طور پر حکومت اور اشرافیہ کی آنکھیں اب کھل جانی چاہئیں اور ان امور و عوامل پر توجہ کی ضرورت ہے جو بھاری بھر کم قرضے لینے کے باوجود بھی ہم معاشی مشکلات سے نکل نہیں سکتے بہتر معاشی منصوبہ بندی اور خاص طور پر تعیشات سے اجتناب اور چادر دیکھ کرپائوں پھیلا کر ہم اس صورتحال سے نکل سکتے ہیں آپس کے اختلافات اور سیاسی معاملات تو فطری بات ہے لیکن ا ن کو اس نہج پر نہ لے جایا جائے کہ اس کے اثرات ہمارے ملکی مفادات پر پڑنے لگیں ۔ قوم کو اس صورتحال کا ادراک ہونا چاہئے اور اپنی اصلاح کا آخری موقع سمجھ کراس کی فکر کرنی چاہئے۔

مزید پڑھیں:  ایران اسرائیل کشید گی اور سلامتی کونسل کی ناکامی