یہ” میں میں اور تو تو”آخر کب تک ؟

بالآخر سیاسی قیادت نے ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت پر آمادگی ظاہر کردی ہے۔ یہ آمادگی اگر سال بھر قبل ظاہر کی جاتی تو مناسب ہوتا اب بھی خیر وقت ایسا ہاتھ سے نکل نہیں گیا۔ امید ہی کی جاسکتی ہے کہ بات چیت کے لئے اس آمادگی میں اگر مگر چونکہ چنانچہ کی بجائے عوامی اور ملکی مفادات کو اہمیت و اولیت دی جائے گی۔ گزشتہ روز وزیراعظم شہباز شریف نے ملک کو درپیش چیلنجز سے نکالنے کے لئے مختلف الخیال سیاسی قیادت کو مل بیٹھنے کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ معاشی اصلاحات، معاشی ایجنڈے، کفایت شعاری سمیت اہم ترین اقدامات اور معاملات پر پوری سیاسی قیادت کو اپنے اختلافات ایک طرف رکھ کر مل بیٹھ کر فیصلے کرنے چاہئیں۔ دوسری جانب سابق وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ پاکستان کی ترقی ، معاملات اور جمہوریت کے لئے کسی قربانی سے گریز نہیں کروں گا اس ضمن میں کسی سے بھی بات کرنے کو تیار ہوں اور اس جانب ہر قدم اٹھانے کے لئے بھی تیار ہوں۔ گو وزیراعظم کے خطاب اور عمران خان کے بیان ہر دو میں کچھ منفی باتیں اور پرانے الزامات کی تکرار بھی موجود ہے لیکن بہتر یہی ہے کہ دونوں رہنمائوں کے بیانات کے اس حصے پر بات آگے بڑھائی جائے جو سیاسی کشیدگی کم کرنے میں معاون بن سکیں۔ مروجہ سیاست میں شخصی انا، ضد و ہٹ دھرمی اور ہر مخالف کے لئے عامیانہ جملے بازی کے نتائج ہر کس و ناکس پر دوچند ہیں۔ نیز یہ کہ ضد، ہٹ دھرمی اور ناپسندیدگی سے جنم لینے والی نفرت معاملات کو بگاڑنے، سیاسی کشیدگی بڑھانے اور معاشرتی اقدار کو تباہی سے ہمکنار تو کرسکتی ہے ان سے تحمل و برداشت اور رواداری کشید کرنا بہت مشکل ہے۔ ملک اس وقت سیاسی اور معاشی طور پر جہاں کھڑا ہے ان حالات کا تقاضا ہے کہ سیاسی قیادت ہوش کے ناخن لے اپنے اختلافات کو مذاکرات کی میز پر طے کرے اور اس امر کو یقینی بنانے کے لئے کوئی کسر نہ اٹھارکھے کہ نہ صرف خیبر پختونخوا اور پنجاب اسمبلیوں کے انتخابات وقت پر ہوں بلکہ باقی ماندہ دو صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی کے انتخابات بھی ان ایوانوں کی دستوری مدت پوری ہونے کے بعد وقت پر اور شفاف و آزادانہ طور پر منعقد ہوں۔ اس امر پر دو آرا ہرگز نہیں کہ نفرتوں کی سیاست کے بڑھاوے سے آئین شکن قوتوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اس صورت حال پر یہ مثال صادق آتی ہے کہ لڑتے لڑتے ہوگئی گم ایک کی چونچ اور ایک کی دم۔ ملک کی پچھتر سالہ تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ سیاستدانوں نے تحمل و بردباری کا دامن چھوڑ کر جب بھی انارکی کو ہوا دی آئین شکن قوتوں کو دستور سے ماورا اقدامات کا موقع ملا۔ محض یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ آج دنیا تبدیل ہوچکی سوشل میڈیا اور ابلاغ کے دوسرے ذرائع کی طاقت علاقائی و عالمی حالات میں ناپسندیدہ اقدام کی سہولت کاری نہیں ہوپائے گی۔ فہمیدہ انداز میں یہ بات سمجھنا ہوگی کہ جب بھی دستور شکنی ہوئی اس وقت بھی کوئی چیز دستور شکنی کے لئے معاون تھی نہ حالات سازگار لیکن انہونی ہوگئی۔ سیاسی عمل کو تسلسل کے ساتھ آگے بڑھانے کا سنجیدہ طریقہ اپنے وقت پر ایسی مثبت سوچ کو اپنانا ہے جس سے سیاسی عمل اور نظام بند گلی میں داخل نہ ہونے پائیں۔ وزیراعظم کی جانب سے مل بیٹھنے کی دعوت اور عمران خان کا ملک، جمہوریت، ترقی اور ملکی مفادات میں مل بیٹھنے پر آمادگی ظاہر کرنا اگر محض الفاظ کی جگالی نہیں تو طرفین کو ایک قدم آگے بڑھ کر عملیت پسندی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ ابتدا پی ڈی ایم اور اتحادی جماعتیں تحریک انصاف سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں سے بات چیت کے لئے بااختیار کمیٹی بنائیں اسی طرح تحریک انصاف بھی ایک بااختیار کمیٹی بنائے جو حکومتی اتحاد اس کے اتحادیوں اور دوسری جماعتوں سے بات چیت کرے البتہ ہر دو کمیٹیوں کو فیصلہ سازی کا اختیار ہونا چاہیے۔ ماضی کی طرح نہ ہو کہ بات چیت بھی ہو اور پھر کوئی ایک فریق یہ کہہ دے کہ مخالفین سے بات چیت میرے نظریات کی توہین ہے۔ ہم یہ امر بطور خاص سیاسی قائدین کے سامنے رکھنا ضروری خیال کرتے ہیں کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام تو ہے ہی مگر اس کی وجہ سے جن معاشی اور معاشرتی مسائل کا سامنا ہے وہ ہر گزرنے والے دن کے ساتھ سنگین تر ہوتے جارہے ہیں فقط یہی نہیں بلکہ سیاسی و معاشی عدم ا ستحکام کی وجہ سے عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے ساتھ جاری بات چیت کی بیل منڈھے نہیں چڑھ پارہی۔ ایک کے بعد ایک شرط کا سامنے آنا اس امر کی تصدیق کرتا ہے کہ آئی ایم ایف کو اولا یہ گارنٹی چاہیے کہ موجودہ حکومت سے ہونے والے معاہدہ کی مستقبل کی حکومت بھی پاسداری کرے گی۔ بداعتماد کی یہ فضا کیوں بنی اس سے عمران خان اوران کے رفقا بخوبی آگاہ ہیں۔ ثانیا یہ کہ آئی ایم ایف ان دوست ممالک کی تحریری گارنٹی مانگ رہا ہے جن کے بارے میں حکومت یہ کہتی آئی کہ یہ دوست ممالک معاشی استحکام کے لئے مخصوص رقم بلاسود یا کم ترین شرح سود پر دینے کے لئے آمادہ ہیں۔ سیاسیات کا ایک عام طالب علم بھی یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ ان شرائط کا پس منظر کیا ہے اور ان کا ملک کی موجودہ صورتحال سے کتنا تعلق ہے۔ ان حالات میں مناسب بلکہ عوامی مفاد کا عمل یہی ہے کہ سیاستدان نفرتوں کا بیوپار ترک کر کے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کریں۔ ہماری دانست میں بدترین اختلافات کا حل بھی مذاکرات کی میز پر ہی نکل سکتا ہے۔ یہ بدقسمتی ہے کہ ہمارے ہاں سیاسی اختلافات کی بنیاد پر نفرتوں کے الائو سلگانے اور پھر انہیں بھڑکاتے رہنے میں ہر جماعت اور لیڈر نے حصہ بقدرے جثہ ڈالا۔ غور طلب امر یہ ہے کہ اس کا ملک اور عوام کو کیا فائدہ ہوا۔ نرم سے نرم الفاظ میں یہی عرض کہا جاسکتا ہے کہ سیاسی عدم استحکام اور معاشی بحران ہر دو نے ان طبقات کی لاٹری لگادی جو ایسے حالات میں صرف اپنی تجوریاں بھرنے کو مقصد زندگی سمجھتے ہیں اس کے نتیجے میں پچھلے ایک برس کے دوران مہنگائی نے عام شہری کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے ۔ بیروزگاری، غربت اور دیگر مسائل کی سنگینی میں اضافہ بھی ایک تلخ حقیقت کے طور پر ہمارے سامنے ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ عمران خان نے ملک، جمہوریت، ترقی اور استحکام کے لئے سب سے مذاکرات کرنے کی جو خواہش ظاہر کی ہے وہ "رات گئی بات گئی” کے مصداق نہیں ہوگی بلکہ وہ اس کے لئے عملی قدم بھی اٹھائیں گے۔ مکرر اس امر کی جانب متوجہ کرنا ضروری ہے کہ سیاستدانوں کو ایک دوسرے کے بارے میں بات کرتے ہوئے اخلاقی روایات اور سماجی اقدار کو پامال کرنے سے گریز کرنا چاہیے انہیں بطور خاص یہ بات سمجھنا ہوگی کہ سیاست عوام اور ملک کے لئے ہوتی ہے مطلب یہ کہ سیاسی عمل کا بنیادی مقصد ایسی اصلاحات ہوتا ہے جن سے شہریوں کی زندگیوں میں خوشیاں اور آسانیاں آئیں نہ کہ آبادی کے مختلف الخیال طبقات کے درمیان عدم برداشت کے بیج بوئے جائیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ ملک، جمہوریت، معاشی و سیاسی استحکام اور دوسرے مسائل کے حل کے لئے طرفین نے مذاکرات پر آمادگی کا جو اظہار کیا ہے یہ زبانی جمع خرچ ثابت نہیں ہوگا بلکہ عملی طور پر مذاکرات کے ذریعے درپیش مسائل کا حل تلاش کیا جائے گا نیز یہ کہ سیاسی قیادت آج کے مشکل حالات میں بالغ نظری کا مظاہرہ کرے گی تاکہ دکھوں اور مصائب سے بھرے دن اختتام کو پہنچیں اور لوگوں کو خوشگوار تبدیلی کا احساس ہو۔ امید واثق ہے کہ میں میں اور تو تو کی بجائے ہم سب اور ہم ایک ہیں کا عملی مظاہرہ دیکھنے میں آئے گا۔

مزید پڑھیں:  روٹی کی قیمت دا گز دا میدان