بچوں کی تعلیم خطرے میں

اگرچہ تعلیم ترجیح اول ہونی چاہئے اور بہت حد تک ہے بھی مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے ہاں سب سے پہلا سمجھوتہ تعلیم ہی پر ہوتا ہے کچھ قدرتی حالات اور عوامل بھی تعلیم کی راہ کی رکاوٹ بنے جس میں کرونا ‘سیلاب اور دہشت گردی بطور خاص قابل ذکر ہیں زلزلہ کی تباہ کاریوں سے ہم برسوں بعد بھی نہیں نکل سکے اب بھی بہت سے سکولوں کی تعمیر نو و بحالی پر کام مکمل ہونے کا یقین نہیں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ نشانہ معصوم بچوں کے تعلیمی دارے بنے سیلاب آنے پر بھی بصورت تباہی عمارات و نقل مکانی اور دیگر اثرات سے طالب علم محفوظ نہ رہ سکے ۔ کرونا سے تو پوری دنیا کا نظام ایسا بگڑا کہ دنیا ہی تبدیل ہو کر رہ گئی اس کی وجہ سے سکولوں اور تعلیمی اداروں کی بندش کے خاص طور پر اثرات ہمارے بچوں پر اس طرح پڑے کہ بہت سارے بچے اس دوران سکول چھوڑ گئے تو واپس نہ آئے اس وقت مہنگائی کے باعث طالب علم اور ان کی تعلیم مختلف سمتوں سے متاثر ہو رہی ہے۔بڑھتی مہنگائی کے جہاں دوسرے شعبوں پر اثرات پڑے ہیں وہاں اس کے ا ثرات سے تعلیم کا شعبہ بھی محفوظ نہیں رہا تعلیم متوسط طبقے کی ترجیحات کا حصہ ضرور ہے زیریں طبقے کے والدین بھی کسی نہ کسی طرح اپنے بچوں کو پڑھا لکھا کر ان کی زندگی بہتر کرنے کا خواب دیکھتے ہیں بچوں کی زندگی بہتر کرنا ہرماں باپ کا خواب ہوتا ہے مگر جہاں پیٹ پوجا کی مجبوری آں پڑے وہاں پھر بچے کو سکول بھجوانے کی بجائے کسی دکان پر مستری کے پاس سائیکل والے کے پاس اور کسی گھر میں خدمت کے لئے بجھوانے کا عمل بھی ہوتا ہے اس وقت شعور و آگہی کو اس کی وجہ قرار دینا اس لئے بھی مناسب نہیں لگتا کہ کم از کم اب لوگوں کو تعلیم کی اہمیت کا شعور بہرحال آگیا ہے باقی آڑے آنے والی مجبوریوں کا کیا کیا جائے ۔ ہمارے ہاں سرکاری طور پر قوانین تو اس ضمن میں عالمی معیار کے ہیں بچوں سے مشقت کی کسی بھی معاشرے میں حمایت ممکن نہیں مگر حقیقی معنوں میں قوانین کی موجودگی اور بچوں سے مشقت پر پابندی کا قانون اسی وقت ہی موثر اور قابل قبول ہو سکتی ہے جب بچے کو پیٹ بھر کے روٹی تو ملے روکھی سوکھی ہی سہی مگر جہاں اور جس معاشرے میں ناں جویں کی محتاجی ہو اس معاشرے میں یورپی قوانین اور فلاحی معاشرے کی نقالی بس دکھاوا تو ہوسکتا ہے حقیقی معنوں میں اس پر عملدرآمد نہیں ہو سکتی اگر اس پر عملدرآمد کرنا ہو تو اچھی بات یہ ہو گی کہ بچے کی وہ مجبوریاں دیکھی جائیں کہ وہ سکول کی بجائے کسی جگہ کام سیکھنے اور مشقت کے لئے کیوں جاتا ہے باقی اوپر بیاں کردہ وجوہات بھی سکولوں سے بچوں کے اخراج اور شرح خواندگی و شرح تعلیم میں موجودہ اور آئندہ کمی کی ٹھوس وجوہات میں سے ہیںسرکاری سکولوں میں جیسے تیسے بچے آتے تو ہیں لیکن ان سکولوں میں تعلیم دینے کا معیار یہ ہوگیا ہے کہ خود سرکاری سکولوں کے اساتذہ کے بچے صبح والد کے ساتھ نکلتے ہیں مگراس کے ساتھ سرکاری سکول نہیں جاتے بلکہ والد ان کوکسی اچھے نجی سکول کے دروازے پر اتار جاتا ہے سرکاری تعلیمی ا داروں میں نصابی کتب بھی اب سارے طالب علموں کو دستیاب نہیں غرض مختلف وجوہات کی بناء پر والدین بچوں کو سرکاری سکول میں بھیجنے کی بجائے اپنے بچوں کو ورکشاپ بھیجنے کو ترجیح دیتے ہیں کہ کم از کم بچہ کچھ ہنر تو سیکھے مہنگائی سے نجی تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم بچوں اور والدین پر بوجھ میں اضافہ فطری امر ہے ان سکولوں میں فیسوں اور ٹرانسپورٹ کے مد میں خاصی بڑی رقم پہلے ہی وصول ہو رہی ہوتی ہے اب نئے تعلیمی سال میں فیسوں اور سٹینشری کی قیمتوں میں اضافہ اور ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں بے تحاشہ اضافہ کی شکایات موصول ہو رہی ہیں ایک ایسے وقت جب ہر چیز کی قیمتوں ک آگ لگی ہوئی ہے نجی تعلیمی اداروں سے فیسیں اور دیگر اخراجات میں اضافہ نہ کرنے کی کیسے توقع کی جا سکتی ہے البتہ یہ اضافہ حقیقت پسندانہ ہونا چاہئے اور مالکان کوشش کرکے اپنا منافع کم رکھنا چاہئے نجی تعلیمی ادارے قائم کرنے کو اب سب سے منافع بخش کاروبار سمجھا جاتا ہے تعلیم کو کاروبار بنا دیا گیا ہے اور ساتھ ہی اس میں لوٹ مار بھی شروع ہو گئی ہے ایک اوسط خاندان کے اگر تیں بچے مختلف تعلیمی اداروں میں مختلف مدارج کی تعلیم حاصل کر رہے ہوں تو اس مہنگائی کے پیش نظر ان کو ہر جگہ یہاں تک کہ تعلیم میں بھی سمجھوتہ کرنا مجبوری بن جائے گی اس سے بڑھ کر المیہ کیا ہو گا کہ اب والدین اپنا پیٹ کاٹ کر بھی بچوں کو پڑھانے سے قاصر رہنے لگے ہیں۔
معیشت کی بگڑتی ہوئی صورتحال کا مطلب یہ ہے کہ تنخواہوں میں بھی شاید بہت کم ہی اضافہ ہو جس کے نتیجے میں ممکن ہے کہ کچھ لوگ اپنی نوکریاں چھوڑنے کے بارے میں سوچیں۔ تاہم نئی نوکریوں کا ملنا نہ ہی آسان نظر آرہا ہے اور نہ ہی فائدہ مند۔ اس صورتحال میں زیادہ تر لوگوں کی آمدنی متاثر ہوگی اور مستقبل قریب میں حالات بہت سے خاندانوں کو سخت فیصلے لینے پر مجبور کرسکتے ہیں۔مستقبل میں ضرورت اور آسائش میں نہیں بلکہ متعدد ضروریات میں سے انتہائی ناگزیر ضرورت کا انتخاب بھی کرنا پڑسکتا ہے۔ ایسے موقع پر عموما تعلیم پر سب سے پہلے سمجھوتا کیا جاتا ہے۔ جب خاندانوں کو لگتا ہے وہ مہنگی تعلیم کے اخراجات اٹھانے سے قاصر ہیں اور کچھ خرچوں کو کم کرنے یا مستقل طور پر بند کرنے کی ضرورت ہے تو ان میں سے زیادہ تر لوگ اپنے بچوں کی تعلیم چھڑوا کر انہیں کام کرنے بھیجنے کو ترجیح دیں گے تاکہ نہ صرف اخراجات میں کمی آئے بلکہ آمدنی میں بھی اضافہ ہو۔سالانہ اسٹیٹس آف ایجوکیشن کی رپورٹ نے نجی تعلیمی اداروں سے واپس سرکاری اسکولوں میں داخلوں کو ظاہر کیا ہے۔ تو کیا یہ بڑھتے ہوئے معاشی دبائو کے باعث ہوا ہے چونکہ سرکاری اداروں میں فیس ادا نہیں کرنی پڑتی۔ اس سوال سے قطع نظر شاید ہمیں اس رجحان میں مزید اضافہ دیکھنے کو ملے گا۔ بدقسمتی سے بہت سے والدین اپنے بچوں کی تعلیم چھڑوانے پر بھی مجبور ہوں گے۔ نجی تعلیمی ادارے لوگوں کی استطاعت سے باہر ہوسکتے ہیں اور اس حوالے سے شاید کئی والدین مشکل فیصلے لینے پر مجبور ہوں گے۔
اسکول جانے والے ایک بچے کی تعلیم میں حائل رکاوٹوں کے اس کے والدین، خاندان اور مجموعی طور پر پورے ملک پر کافی زیادہ اثرات مرتب ہوں گے۔ ہر وہ بچہ جو تعلیم حاصل کرنا چھوڑ دیتا ہے یا تعلیمی نقصانات کا سامنا کرتا ہے اس سے نہ صرف اس کی روزگار کے حصول کی صلاحیتیں متاثر ہوتی ہیں بلکہ اس کے خاندان کے مستقبل پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ہمیں اپنے بچوں کی تعلیم میں حائل ان رکاوٹوں کو دور کرنا ہو گا ۔اس ضمن میں ماہرین تجویز رکرتے ہیں کہ ایسی نوبت نہ آنے دینے کے لئے ضروری ہو گا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو وسعت دی جائے اور بالخصوص تعلیم کے لیے مشروط رقم کی منتقلی کو یقینی بنایا جائے۔ ریاست کو جس حد تک ممکن ہو تعلیم کے لیے فنڈز مختص کرنے کی ضرورت ہے اور اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ بڑھتے ہوئے اخراجات کے تناظر میں ان فنڈز میں مناسب اضافہ کیا جاتا رہے۔ پھر بھی ماضی کی طرح خدشہ ہے کہ قلیل مدتی مفادات کی خاطر ایک بار پھر ہماری تعلیمی ضروریات کو نظر انداز کردیا جائے گا۔

مزید پڑھیں:  کیا بابے تعینات کرنے سے مسائل حل ہوجائیں گے