مشرقیات

یہ تم نے لعنت کس پر بھیجی؟ ایک مسلمان پرکیا یہ سچ ہے ؟حضرت ام دردا نے عبدالملک بن مروان سے پوچھا وہ ان دنوں مہمان بن کر دمشق گئی تھیں جو بنو امیہ کا پائے تخت تھا۔نوکر اور پھر گھر کے نوکر کی کوئی عزت نہیں ہوتی اسے گھڑکتے ہیں جھڑکتے ہیں ‘مارتے ہیں’ پیٹتے ہیں نکال دیتے ہیں’ کچھ ظالم آقا اور بھی ظلم کرتے ہیں نہ جانے کیا کیا۔ اسلام نے بتایا نہیں یہ بات غلط ہے وہ بھی اللہ کے بندے ہیں ان کا بھی اسی طرح خیال رکھو جس طرح تم اپنا خیال رکھتے ہیںخود جو کھائو انہیں بھی کھلائو خود جو پہنو انہیں پہنائو ان کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر انہیں حقیر اور ذلیل نہ کرو۔اسلام سے پہلے عہد جاہلیت میں جزیرہ نما عرب میں خادم یا نوکر جانوروں سے بدتر سمجھے جاتے تھے یونان اپنی ترقی کے اعلیٰ ترین دور میں بھی خادموں کو کیڑے مکوڑوں سے زیادہ نہیں سمجھتا تھا گھریلو ملازم ہی نہیں کاشتکار ‘مزدور ‘ چھوٹے موٹے تاجر ‘ غریب غرباء عوام سب کے سب یونان میں انصاف اور عزت سے محروم تھے اور ان سے بڑا انسانیت سوز سلوک کیا جاتا تھا۔اسلام نے طاقت کے پندار اور نفرت کے اس جذبے کو توڑ دیا اور بتایا کہ سب انسان آپس میں بھائی بھائی ہیں آقا اور خادم مالک اور غلام ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ مسلمانوں میں تو یہ رشتہ اخوت اور بھی مضبوط ہو جاتا ہے رنگ ‘ نسل ‘ زبان یا کوئی بندھن اس رشتہ کو توڑ نہیں سکتا۔
حضرت ام دردا بڑھاپے کے زمانے میں ایک بار عبدالملک بن مروان کی مہمان بنیں راتیں عبادت میں گزرتی تھیں ایک رات انہوں نے سنا کہ عبدالملک زور زور سے کسی کو آواز دے رہا ہے شاید وہ نیند سے جاگا تھا حکمران وقت کی حیثیت سے عبد الملک بڑا سخت مزاج اور اکھڑ واقع ہو ا تھا ویسے تھا وہ بڑا علم والا۔۔ نہ جانے کیا ضرورت پڑی کہ اس نے اپنے ملازم کو آواز دی اس کے آنے میں دیر ہوئی تو عبدالملک نے غصے میں اپنے خادم پر لعنت بھیجی وہ حکمران وقت تھا اس کے غصہ کو کون روک سکتا تھا۔غصہ آتا ہے تو ہم لوگ بھی بڑی آسانی سے ایک دوسرے پر لعنت بھیجتے ہیں کبھی زبان سے کہیں ہاتھ کے اشارے سے بعض اسے محض مذاق سمجھتے ہیں اور اس کی ممانعت کا صحیح اندازہ نہیں رکھتے حکم ہے کہ ایک مسلمان دوسرے پر کبھی لعنت نہ بھیجے۔ صحیح مسلم کی فصل آداب میں ہے کہ صبح ہوئی تو حضرت ام دردا نے عبدالملک سے پوچھا ۔۔ تم نے رات کس پر لعنت بھیجی تھی؟
عبدالملک نے کہا۔۔ میں نے اپنے ملازم خاص پر خفا ہو رہا تھا۔
حضرت ام دردا نے فرمایا۔۔ کیا وہ مسلمان نہیں!
عبدالملک نے کہا۔۔ جی! وہ مسلمان ہے۔
حضرت ام دردا بڑی عابدو زاہد صحابیہ تھیں حضرت ام دردا ‘ ان کے خاوند قرآن و حدیث کے بہت بڑے عالم تھے یہی حال حضرت ام دردا کا بھی تھا مسلمانوں کو حکم ہے کہ اگر کسی کو غلطی پر دیکھو تو اسے صحیح بات بتائو یہ حکم عام ہے بڑے چھوٹے کی اس میں کوئی تمیز نہیں بس اصلاح کی یہ کوشش حکمت و دانائی کے ساتھ ہونا چاہئے چنانچہ حضرت ام دردا نے عبد الملک کو ٹوکا ذرا بھی اس بات کی پروا نہ کی کہ وہ حکمران وقت ہے فرمایا کہ ۔ شاید تمہیں یاد نہیں رہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں اس بات سے روکا ہے آپۖ کے ارشاد مبارک کا مطلب ہے کہ کسی مسلمان پر لعنت بھیجنے والا قیامت کے دن میری شفافت کا مستحق نہ ہو گا۔

مزید پڑھیں:  کور کمانڈرز کانفرنس کے اہم فیصلے