پاک بھارت تجارت

وفاقی وزیر تجارت سید نوید قمر نے کہا ہے کہ پاکستان بھارت کے ساتھ تجارت کا خواہش تو ہے مگرمودی حکومت میں یہ ممکن نہیں ہے ۔ وزیرتجارت نے کہا کہ وفاقی کابینہ نے بارٹر ٹریڈ فریم ورک منظور کرلیا ہے۔ جس کی مدد سے ڈالر بحران پر قابو پانے اور معیشت کو سہارا اور تجارتی خسارے پر قابو پانے کی کوشش کریں گے۔سید نوید قمر نے کہا کہ بینکاری چینل کا نہ ہونا فریم ورک کا سبب ہے۔ اس سسٹم کے تحت افغانستان، ایران، وسط ایشیائی و افریقی ممالک اور چین کے ساتھ اشیاء کے بدلے اشیاء کی تجارت ہوسکے گی۔ وزیرتجارت نے بتایا کہ پاکستان بارٹر سسٹم کے تحت اشیاء کے بدلے مشینری حاصل کرنے کا خواہشمند ہے ۔ دریں اثنائایک بھارتی سفارتکار نے کہا ہے کہ بھارت نے پاکستان کے ساتھ تجارتی تعلقات کو کبھی نہیں روکا اور وہ آگے بڑھ کر کاروباری تعلقات کو معمول پر لانا چاہتا ہے۔ بھارت کے ڈپٹی ہائی کمشنر سریش کمارکا کہنا تھا کہ آج کی سفارت کاری سیاحت، تجارت اور ٹیکنالوجی پر مرکوز ہے کیونکہ پیسہ اپنی زبان بولتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ بھارت ہمیشہ پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتا ہے کیونکہ ہم جغرافیہ کو تبدیل نہیں کرسکتے۔بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر نے دعوی کیا کہ ہم پاکستان کے ساتھ معمول کے تعلقات کی طرف بڑھنا چاہتے ہیں، ہم نے پاکستان کے ساتھ تجارت بھی نہیں روکی، یہ پاکستان نے روکی تھی، یہ دیکھنا بہتر ہوگا کہ ہم اپنے مسائل اور حالات کو کیسے بدل سکتے ہیں۔پاکستان اور بھارت کے درمیان ہو یاپھر دیگر ہمسایہ ممالک کے درمیان مال کے بدلے مال کی تجارت لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ملکی مصنوعات مہنگی اور ان کا معیار پست ہو گا تو پھر یہ تجارت کیسے ہو سکے گی پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارتی تعلقات میں پاکستان کی عدم دلچسپی کی بنیادی وجہ ہی یہ ہے کہ ہمارے پاس مصنوعات کی کمی ہے البتہ اس کے علاوہ تجارتی مواقع اور شعبے ایسے ضرور ہیں جن سے دونوں ممالک فائدہ اٹھا سکتے ہیں بھارت جب چین سے اختلافات اور تجارتی عدم توازن کے باجودبھی چین سے تجارتی تعلقات رکھ سکتا ہے تو پھر پاکستان کے لئے ا یسا کرنے میں سوائے مسئلہ کشمیر کے کوئی امرمانع نہیں ہونا چاہئے اس مسئلے کو ایک طرف رکھ کرتجارتی تعلقات پر زور دینے پر تنقید تو بہت ہوتی رہی ہے مگر اس کا حل آج تک پیش نہیں ہوا۔ پاکستان ایسی بہت سی بھارتی مصنوعات اور اشیاء و اجناس کا براہ راست نہیں بلکہ بالواطہ طور پر ہونے کی وجہ سے مہنگے داموں خریدار ہے بنا بریں دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی تعلقات کی وکالت ممکن ہے ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بحالی ہوسکتی ہے تو پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارتی نوعیت کے تعلقات میں بھی رکاوٹیں دور کرنا ناممکن نہیں۔

مزید پڑھیں:  تمام تر مساعی کے باوجود لاینحل مسئلہ