مزید تاخیرکی گنجائش نہیں

اگرچہ ان سطور کے تحریر کئے جانے تک زمان پارک لاہور میں پولیس آپریشن سے صورتحال میں تبدیلی کا عنصر بڑھ گیا ہے لیکن بہرحال اگر سیاسی و عدالتی معاملات کو الگ الگ رکھ کردیکھا جائے تو ہر دو صورتوں کے باوجود سیاسی مذاکرات کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوا ہے جس کے بغیر کشیدگی میں کمی لانا ممکن نظر نہیں آتا قبل ازیںپاکستان تحریک انصاف نے مذاکرات کا عندیہ دیتے ہوئے حکومت پر زور دیا جا چکا ہے کہ وہ تمام سیاسی جماعتوں کی ایک میز پر ملاقات کے لیے ایک تاریخ اور مقام کا تعین کرے تاکہ سب مل بیٹھیں۔وزیراعظم شہباز شریف بھی مذاکرات کا عندیہ دے چکے ہیں دوسری جانب عمران خان بھی مفاہمت آمیز لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ وہ ہر کسی سے بات کرنے کو تیار ہیں۔لیکن ملکی تاریخ میں اس طرح کے لمحات نازک موڑ ثابت ہوتے رہے ہیں ایسے میں دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ اس بار تاریخ خود کو نہ دہرائے خیال رہے کہ آخری بار تمام جماعتوں کے درمیان گفتگو کا موقع اس وقت آیا تھا جب فروری میں وزیر اعظم نے آل پارٹیز کانفرنس بلائی تھی اور عمران خان سمیت ملک کی تمام سیاسی قیادت کو ملک کو درپیش چیلنجز پر قابو پانے کے طریقوں پر بات چیت کے لیے مدعو کیا تھامگر وہ بیل منڈھے چڑھ نہ سکی بلکہ الٹا کشیدگی میں اضافہ ہوتا گیا جس کے نتائج آج آپ کے سامنے ہے دریں اثناء ایک اور سعی یہ ہو رہی ہے کہ پاکستان بار کونسل نے کہا ہے کہ پی بی سی آل پارٹیز کانفرنس بلانے اور پارلیمانی جماعتوں کی تمام مرکزی قیادت کو اپنے تنازعات بات چیت کے ذریعے حل کرنے اور آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد کے لیے مدعو کرنے کے لیے تیار ہے۔تاکہ تمام پارلیمانی جماعتیں اپنے تنازعات بات چیت کے ذریعے حل کریں اور دیگر اہم عوامی مسائل جیسے مہنگائی، کرنسی کی قدر میں کمی اور بے روزگاری وغیرہ پر توجہ دیں۔اس امر کے اعادے کی ضرورت نہیں کہ ملک کے معاشی حالات کے باعث اب اغیار ہمارے دفاعی صلاحیتوں تک میں اپنی منوانے کی تگ ودو میں ہیں اور بعض آزمائے ہوئے امریکی عناصر بھی ہمارے داخلی معاملات میں بیان دے کر دخل اندازی کے مرتکب ہوئے ان سارے عوامل کی بنیادی وجہ ہی یہ ہے کہ ملکی قیادت اور سیاستدان کٹی ہوئی پتنگ کی طرح ادھر ادھر لڑھک رہے ہیں اور ملک کے معاشی حالات روز بروز گھمبیر ہوتے جارہے ہیں جس کی بڑی وجہ سیاسی عدم استحکام اور داخلی معاملات ہیں اگرچہ اب سیاسی قیادت کے مذاکرات کا ماحول بنتا نظر آرہا ہے لیکن اس کے باوجود اس امر کا تعین اس وقت ہی ہو سکے گا جب باضابطہ رابطوں کا آغاز ہو اور مذاکرات شروع ہوں ۔ حکومتی اتحاد میں شامل سیاسی جماعتیں ہوں یا پھر تحریک ا نصاف ان کو بہت پہلے ہوش کے ناخن لینے چاہئے تھے اگر ایسا ہوتا تو ملکی دفاعی ضرورتوں بارے اغیار کے ”فرمائشوں” کی نوبت نہ آتی بہرحال ایک نہ ایک دن ایسا ہونا ہی تھا اس ماحول میں اس طرح کا مطالبہ سامنے آنا پوری سیاسی قیادت کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہونا چاہئے جہاں تک مذاکرات کی طرف آنے کا سوال ہے تو اس بارے میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ حکومت اور تحریک انصاف دونوں جب اپنی اپنی جگہ بند گلی کی آخری اور ناقابل عور دیوار تک پہنچے ہیں تو ان کو اس کی ضرورت محسوس ہوئی ہے کیا ہی اچھا ہوتا کہ قبل ازیں جب مذاکرات کی دعوت دی گئی تھی اس وقت ہی جانبین اس طرز عمل کا مظاہرہ کرتیں جس کا اب مظاہرہ سامنے آیا ہے اگر چہ اب بہت دیر ہو چکی ہے اور بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے بہہ چکا مہنگائی سے لیکر ملک کے داخلی معاملات میں ابتری سمیت دیگر عوامل کے باعث اب صورتحال ناقابل بیان حد کو عبور کر چکی اب بھی ان کو ہوش آنا صبح کا بھولا شام کوگھر آئے تو اسے بھولا نہیں کہتے ہیں کے مجبوراً مصداق گردانا جائے گا اور دیر آید درست آید کے مصداق اب بھی اگر پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی سنجیدگی کے ساتھ معاملات پرغور کرکے کسی مثبت نتیجے پر پہنچیں تو احسن ہو گا سیاست اور عدالتی معاملات کو الگ الگ رکھا جانا چاہئے اور ایسا کرکے ہی بات آگے بڑھ سکتی ہے عدالتوں اور حالات کو موافق دیکھ کر کچھ اور ہوا کا رخ بدل کر بادبان کی پھڑ پھڑاہٹ میں اضافہ اور رخ تبدیل ہونے کے امکانات دیکھ کر کروٹ بدلنے کا سلسلہ جاری رہا تو کبھی بھی سیاسی مفاہمت کی منزل نہیں آئے گی اور ملک بحران دربحران کا شکار ہی رہے گا جہاں تک دو صوبوں اور قومی اسمبلی کے درجنوں نشستوں پر انتخابات پر اختلافات کا تعلق ہے مناسب ہو گا کہ اس حوالے سے کوئی ایسا فارمولہ طے پا جائے کہ بجائے دو دو مرتبہ انتخابات کے ایک ہی مرتبہ پورے ملک میں عام انتخابات پر اتفاق کیاجائے اور سیاسی جماعتیں اس امر کو یقینی بنائیں کہ وہ کسی قسم کی بھی مداخلت اور ہاتھ پکڑنے و دستگیری کی بجائے شفاف طور پر عوام سے فیصلہ کروائیں گی اور جس بھی جماعت یا اتحاد کو عوام چن لیں احسن طریقے سے ان کی حکومت بننے دی جائے گی انتخابی نتائج کو کھلے دل سے تسلیم کیا جائے گاجیتنے والی جماعت یا اتحاد حکومت بنائے اور دیگر حزب اختلاف کا جمہوری کردار ادا کرتے ہوئے ملک کو اس مشکل سے نکالنے میںحکومت او رحزب اختلاف دونوں اپنا اپنا کردار ادا کرنے کی قومی وسیاسی ذمہ داری بخوبی نبھائیں گی تبھی ملک کے آگے بڑھنے کی راہ ہموار ہو گی جس کی ان حالات میں شدت سے ضرورت محسوس ہوتی ہے۔

مزید پڑھیں:  بجلی چوری۔۔۔ وفاق اور خیبر پختونخوا میں قضیہ ؟