پاکستان میں جمہوریت و انتخابات کی تاریخ

انسانی فکر و تاریخ نے زمانے کے مختلف نشیب و فراز سے گزرتے ہوئے بیسویں صدی میں بہرحال جمہوریت اور انتخابات کو انسانی مسائل کا حل گردانا، اس حوالے سے برطانیہ کو جمہوریت کی ”ماں” کہا جاتا ہے اور اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ دنیا بھر میں جمہوریت اور کرکٹ کو برطانیہ ہی نے متعاف کرایا ہے، برطانیہ کا کمال یہ ہے کہ ایک طرف عوام بادشاہ اور ملکہ کو جمہوری نظام اپنانے کے بعد بھی سرآنکھوں پر بٹھاتے ہیں لیکن ملکی اور عوامی مسائل کے بہترین انداز میں حل کیلئے جمہوریت ہی کو اس قدر مضبوط کئے ہوئے ہیں کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران جس کے سبب برطانیہ موت وحیات کی کشمکش سے دوچار تھا بھی انتخابات سے روگردانی نہ ہوسکی، برطانوی جمہوریت کی دوراندیشی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ برطانیہ کا عظیم مدبر وزیراعظم ونسٹن چرچل جو جنگ عظیم دوئم جیتنے کی وجہ سے قومی ہیرو بنا تھا انتخابات میں شکست کھاگیا۔
کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہر امر میں حکمتیں اور خیر پوشیدہ ہوتی ہیں، دوسری جنگ عظیم کے دوران اگرچہ تحریک پاکستان زور پر تھی لیکن ابھی منزل دور تھی، انتخابات میں چرچل کی شکست نے پاکستان کے قیام میں اہم کردار اداکیا۔ وہ مسلم لیگ جو 1906ء میں ڈھاکہ میں نواب سلیم اللہ خان کی قیادت میں مسملمانوں کے مفادات کے تحفظ کیلئے وجود میں آئی تھی، 1945-46ء تک اتنی مضبوط ہو چکی تھی کہ آل انڈیا مسلم لیگ نے مرکزی اسملی میں ساری نشستیں اور مسلم اکثریتی صوبوں میں نوے فیصد سے زائد نشستوں پر کامیاب ہو کر مسلمانان برصغیر کی نمائندہ جماعت ہونے کا اعزاز حاصل کرلیا۔ ان انتخابات کے بعد انگریزوں اور ہندوئوں کو نہ چاہتے ہوئے بھی جمہوریت کی لاج رکھنے کیلئے مطالبہ پاکستان کو تسلیم کرنا پڑا۔ اگرچہ انگریز ہندوئوں کے بڑے بڑے لیڈر اور مسلمان قوت پرست رہنماء آخری وقت تقسیم ہندوستان کو روکنے کی تگ و دو میں لگے رہے لیکن جمہوری اصولوں کے تحت انتخابات کے نتائج کو ٹالنا بہت مشکل ثابت ہوا اور یوں پاکستان جمہوریت کی طاقت کے بل پر 14 اگست 1947 کو وجود میں آیا۔
لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وہ عظیم اسلامی مملکت جو جمہوری اصولوں کے تحت انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آئی تھی اسے بعدازاں انتخابات کبھی بھی راس نہیں آئے، دراصل قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح اور لیاقت علی خان کی رحلت کے بعد جاگیرداروں، سرمایہ داروں، وڈیروں اور سرداروں و خان خوانین کی صورت میں جو مواد رہ گیا تھا کا جمہوریت سے دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔ وہ اپنے مفادات اور اکڑ خانی سے کسی صورت دستبردار ہونے کو تیار نہ تھے، یہی وجہ تھی کہ 1951ء میں جب پنجاب اسمبلی کیلئے پہلے انتخابات ہوئے تواس میں مرکزی و صوبائی حکومتوں نے جو کردار ادا کیا اس کیلئے ہماری جمہوری تاریخ میں ”جھرلو” کی اصطلاح وجود میں آئی جس کے ذریعے انتخابات کا وہ شرمناک ریکارڈ قائم کیا گیا جو جمہوریت کے نئے نویلے نازک چہرے پر زناٹے دار طمانچہ سے کم نہ تھا۔
اسی طرح مشرقی پاکستان میں پہلے انتخابات 1954ء میں منعقد ہوئے، مشرقی پاکستان ہمارا وہ حصہ تھا جسے قیام مسلم لیگ کے بعد قرارداد پاکستان پیش کرنے کا اعزاز بھی حاصل تھا لیکن قیام پاکستان کے بعد سات برس کی مختصر مدت میں بنگالیوں نے مغربی پاکستان کی بیوروکریسی اور جاگیرداروں کے ارادے بھانپتے ہوئے مسلم لیگ کو عبرتناک شکست سے دوچار کیا، حسین شہید سہروردی نے 1954ء کے آئین کی تشکیل کے بعد 1959ء میں پہلے قومی انتخابات کا اعلان کیا تھا لیکن 1959ء سے پہلے پاکستان کے صدر اسکندر مرزا نے کمانڈر ان چیف جنرل ایوب خان کی ایماء پر 1958ء میں پہلا مارشل لاء نافذ کیا اور یوں انتخابات دھرے کے دھرے رہ گئے اور وطن عزیز طویل عرصے تک ایوب خانی مارشل لاء کے تحت کبھی ابیڈو اور کبھی بی ڈی (بیسک ڈیمو کریسی) کے تجربات سے گزرتا رہا، ایوب خان کے مارشل لاء کے دوران مشرقی پاکستان کے رہنمائوں حسین شہید شہروردی، مولانا عبدالحمید بھاشانی اور مجیب الرحمن بہرحال آزاد خارجہ پالیسی کے مطالبے کے ساتھ آزادی کا مطالبہ کرتے رہے، مغربی پاکستان میں مولانا سید مودودی اور خان عبدالولی خان بھی مارشل لاء کے خلاف پیش پیش رہے۔
پھر ایوب خان کے بعد ایک طرفہ تماشا کہ جنرل یحییٰ خان انتخابات اور نئے دستور کی تشکیل کے دعوئوں کے ساتھ سامنے آئے، کہا جاتا ہے کہ اس نے دسمبر 1976ء میں انتخابات تو کرا دیئے اور کہنے کو پاکستان کے یہ پہلے غیر جانبدارانہ انتخابات قرار پائے لیکن 1969ء سے 1970ء تک کے ایک برس میں مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو اور مشرقی پاکستان میں مجیب الرحمن اور مولانا بھاشانی کی تقاریر و نظریات نے ملک کو عملاً نہ سہی نظریاتی طور پر سوشلزم اور بنگلہ قومیت کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی بنیادیں ڈال دی تھیں، یہی وجہ تھی کہ 1970ء کے انتخابات ہی کے نتیجے میں ملک دولخت ہوا اور مغربی پاکستان (باقی ماندہ پاکستان) میں ان ہی انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے والی جماعت ذوالفقار علی بھٹوکی قیادت میں برسر اقتدار آئی، بھٹو صاحب نے 1973ء میں آئین منظور کراکر بہت بڑا کارنامہ سرانجام دیا، اس دوران پاکستان کو ایٹمی صلاحیت دلانے کیلئے بھی بنیادی کام کیا لیکن افسوس کے ساتھ کہا پڑتا ہے کہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ سیاستدان نے انتخابات کے انعقاد میں تاخیر کیلئے کئی حربے استعمال کئے اور آخر کار 1977ء میں سات برس بعد انتخابات کرائے تو صحیح لیکن دوتہائی اکثریت کے حصول کیلئے جو طریقہ کار اختیار کیاگیا وہ جمہوریت کے اصولوں کے سخت خلاف تھا اور نتیجتاً اتنا بڑا نقصان ہوا کہ وطن عزیز ایک دفعہ پھر مارشل لاء کی تاریکیوں میں ڈوب گیا اور خود بھٹو صاحب کو جان سے ہاتھ دھونا پڑے جو یقیناً پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک بدنما داغ ہے جس نے پاکستان میں انتخابات کے سلسلے کو عوام کیلئے ہولناک اور خوفناک یادوں کا مجموعہ بنا کر رکھ دیا، جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دوران 1985ء میں عام انتخابات کے نتیجے میں محترمہ بے نظیر برسر اقتدار آئیں لیکن ان کی شہادت کے ساتھ پاکستان کی سیاسی تاریخ ایک اور ناقابل فراموش سانحہ سے دوچار ہوئی، 1990ء سے 1999ء تک مسلم لیگ ن اور پی پی پی کے درمیان جمہوریت کے نام پر جو کچھ ہوتا رہا، اسی نے جنرل مشرف کو واک اوور کا موقع دیا اور پاکستان میں جمہوریت پر ایک اور سنگین وار کیا گیا جنرل مشرف کے بعد ان ہی دو جماعتوں کے درمیان باری باری حکومت کے بعد 2018ء میں تحریک انصاف تیسری قوت کے طور پر سامنے آئی جس کو موجودہ تین چار بڑی برسراقتدار جماعتوں نے سلیکٹ کہتے ہوئے بہت زچ کیا یہاں تک کہ پاکستان کی جمہوری تاریخ میں پہلی دفعہ عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہوئی اور عمران خان صاحب کو اپنی مدت اقتدار کی تکمیل سے قبل ہی رخصت کیا اور اب بقول منیر نیازی
اشک رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو
اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستوں
کہنے کو ساری جماعتیں جمہوریت پسند ہیں اور جمہوری اصولوں کے تحت ”عدم اعتماد” لاکر برسر اقتدار آئی ہیں لیکن پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کو تحلیل کروانے کے بعد آئین کی رو سے90 دن کے اندر انتخابات کروانے سے گریزاں ہیں، سپریم کورٹ کے حکم اور آئین پاکستان کی روح کے مطابق انتخابات کرانا لازمی ہیں لیکن اس وقت جمہوریت کے نام پر جو اتھل پتھل جاری ہے، ہم عوام کو ایک نادیدہ خوف سا محسوس ہونے لگتا ہے۔ اللہ پاکستان کی حفاظت فرمائے۔

مزید پڑھیں:  ''چائے کی پیالی کا طوفان ''