چوں چوں کرتی آئی چڑیا، دال کا دانہ لائی چڑیا

سیاسی معاملات کس رخ جا رہے ہیں اور کتنے گھمبیر ہو رہے ہیں، اس پر بہت کچھ کہا جا سکتا ہے مگر ان حالت و واقعات نے جو ان دنوں تیزی سے رونما ہو رہے ہیں اور جس نے مریم نواز کو یہ تک کہنے پر مجبور کردیا ہے ”دوپلڑے برابر ہونے چاہئیں” ان کی وجہ سے یعنی سیاسی حالات کے تیزی سے کروٹیں بدلنے سے ملک کی ”بنانا ری پبلک” بننے میں کتنی کسر رہ گئی ہے۔ ممکن ہے ایک آنچ کی دوری ہی رہ گئی ہو اس لئے وہ جو شاعر نے کہا تھا کہ
لازم ہے کہ دل کے پاس رہے پاسبان عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
تو سیاسی حالات پر تبصرے سے احتراز کرتے ہوئے دیگر معاملات پر بات کرلیتے ہیں کیونکہ یہ بھی تو ہمارے ہی ”گھر آنگن” میں رونما ہو رہے ہیں اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں رمضان قریب ہے بلکہ سر پر آچکا ہے یعنی آج جب یہ کالم لکھا جا رہا ہے تو شعبان کی 25 تاریخ ہے اور اب ماہ رمضان چار یا پانچ دن کی دوری پر ہی اپنی تمام تر فیوض و برکات لئے منتظر ہے، فیصلہ چاند نے کرنا ہے (حالانکہ ہمارے ہاں چاند سے زیادہ چاند کی رویت کا فیصلہ کرنے والے ہی ایک پرانے فارسی جنگی ترانے ”تیز ترک گامزن منزل ما دور نیست” کا ورد کرکے فیصلہ کرتے ہیں)۔ اب فیصلہ کیا ہوتا ہے اس سے قطع نظر وہ جو وزیراعظم نے گزشتہ دنوں حسب روایت ایک سرکاری فائل میں ایسے ہی موقعوں کیلئے رکھے گئے سٹیریو ٹائپ بیان کو اٹھا کر عوام کو خوش کرنے کی کوشش کی تھی اس کا لب لباب یہ تھا کہ ماہ رمضان میں سحری اور افطاری کے اوقات میں بجلی جبکہ کھانا وغیرہ پکانے کیلئے گیس کی لوڈ شیڈنگ نہ کی جائے تو ایسا لگتا ہے کہ گیس والوں نے ابھی سے ان کی ہدایات پر عمل کرنا شروع کردیا ہے اور عام دنوں کی نسبت جب صبح تقریباً ساڑھے پانچ بجے سے 9 بجے پھر ساڑھے دس پونے گیارہ بجے دن سے دو بجے اور پھر شام پانچ بجے سے رات 9 بجے تک گیس کی فراہمی کا شیڈول ابھی سے تبدیل کرنا شروع کردیا ہے کیونکہ گزشتہ روز پشاور کے بیشتر علاقوںمیں صبح ساڑھے دس بجے واپس آنے والی گیس 12 بجے دن شوں شوں کرتی آئی ضرور مگر اس میں اتنی جان نہیں تھی کہ چولہوں پر چڑھی ہانڈیوں کا کچھ بگاڑ سکتی، اس پر وہ پرانی نظم جو بچوں کی درسی کتب میں ہوتی تھی یاد آئی یعنی ”چوں چوں کرتی آئی چڑیا، دال کا دانہ لائی چڑیا” اسی وجہ سے ہم نے گیس کے حوالے سے شوں شوں کی بات کی ہے، خیر آگے چلیں تو آج صبح جب لوگ نماز فجر کی تیاری کیلئے جاگے تو ہر صبح پانچ بجے کے بعد میسر ہونے والی گیس نے شوں شوں کرنے سے بھی انکار کردیا اور یوں بہت سے لوگوں کو بروقت گرم پانی میسر نہ آنے کی وجہ سے جن حالات کا سامنا کرنا پڑا ہوگا اس حوالے سے یہی کا جاسکتا ہے کہ شنیدہ کے بود مانند دیدہ، یخ بستہ پانی سے وضو بنانے والوں کو محکمہ سوئی گیس والوں نے جو سزا دی ہے اس کا جواز ہمیں نظر نہیں آتا، اگرچہ اس بارے میں چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس قیصر رشید صاحب نے کچھ کچھ بلکہ بہت کچھ اپنے ان ریمارکس کے ذریعے عوام کے گوش گزار کر دیا ہے جو انہوںنے گزشتہ روز ایک گیس کی شنوائی کے دوران دیئے اور کہا تھا کہ ”گھریلو صارفین کی گیس سی این جی سٹیشنز کو چلی جاتی ہے ہر دو کلومیٹر پر قائم فلنگ سٹیشنز کی وجہ سے عوام محروم ہیں، سیکرٹری پٹرولیم کا رویہ غیر ذمہ دارانہ ہے” فاضل جج نے تمام متعلقہ ادارے مل بیٹھ کر پالیسی طے کرنے اور رپورٹ 9 مئی تک عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت کی ہے، اب دیکھتے ہیں کہ پالیسی کیا طے کی جاتی ہے، تاہم جب تک یہ پالیسی عدالت میں پیش کی جائے گی تب تک محاورے کے مطابق چڑیاں کھیت چگ چکی ہوں گی یعنی رمضان کا مہینہ بھی گزر چکا ہوگا اور ویسے بھی سیکرٹری پٹرولیم کے بیانات کو فاضل چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ نے ”ہائی لائٹ” کرکے صورتحال پر عوام کے نکتہ نظر سے ہمدرددانہ تبصرہ کیا ہے کیونکہ سیکرٹری پٹرولیم نے عوام کو ”مفت” مشورہ دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ لوگ گیس کے بغیر گزارہ کریں ایسے مشورے تو ”پاگل” بھی نہیں دے سکتے، اس حوالے سے وہ لطیفہ تو آپ نے سنا ہی ہوگا جب ایک شخص کی موٹر کار کسی پاگل خانے کے قریب شام کے قریب پنکچر ہوگئی اور اس نے ٹائر تبدیل کرنے کے دوران چاروں نٹ مٹی سے اٹی ہوئی سڑک پر رکھ دیئے تھے مگر جب ٹائر تبدیل کرنے کا عمل مکمل ہوا تو اندھیرے کی وجہ سے نٹ بولٹ مل نہیں پا رہے تھے پاگل خانے کی کھڑکی سے یہ سارا عمل دیکھتے ہوئے ایک پاگل نے اسے مشورہ دیا کہ باقی تینوں پہیوں سے ایک ایک نٹ نکال کر اس میں لگا دو اور جب شہر پہنچو تو چار نئے نٹ خرید کر چاروں پہیوں میں لگا دو، اس شخص نے کہا کہ تم کیسے پاگل ہو؟ پاگل نے کہا کہ میں پاگل ہوں بے وقوف نہیں ہوں، اب سیکرٹری پٹرولیم جو مشورہ عوام کو دے رہے ہیں عوام پاگل تو ہوسکتے ہیں مگر بے وقوف ہرگز نہیں ہیں، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ صوبہ خیبر پختونخوا کے جن علاقوں سے قدرتی گیس نکلتی ہے (اب مزید علاقوں سے بھی گیس ملنے کی اطلاعات ہیں) وہ اتنی مقدار میں ہے کہ نہ صرف صوبے کی اپنی ضرورت سے کہیں زیادہ ہے بلکہ بچ جانے واگی کثیر مقدار کی گیس ملک کے دیگر حصوں کو فراہم کی جا سکتی ہے مگر غلط پالیسیوں کی وجہ سے سرکار والا مدار نے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس گیس کو ترجیحی بنیادوںپر صوبے کو فراہم کرنی بجائے اسے تقسیم کرنے کیلئے ٹرانسمیشن لائن پنجاب کے علاقے میانوالی کے قریب قائم کر رکھی ہے اور وہاں سے اے کنٹرول کرکے ہمارے صوبے کو اپنی ہی گیس سے محروم رکھا جا رہا ہے، اس ضمن میں ہمارے مختلف اوقات میں لکھے ہوئے کالم گواہی دیں گے جن میں محکمہ سوئی گیس کے حکام کی جانب سے سابق وزیراعلیٰ محمودخان کو گزشتہ سال پشاور میں بڑے قطر کے پائپ لائن کی تنصیب کے حوالے سے صرف تین روز کا لالی پاپ تھما کر خوش کیا گیا جبکہ موجودہ گورنر کو بھی انہی حکام نے اسی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا کر ”موگیمبو خوش ہوا” کہنے پر مجبور کیا حالانکہ انہی حکام نے گورنر کو ”ماموں” بنا دیا تھا، ویسے جہاں تک پشاور ہائی کورٹ کے فاضل چیف جسٹس کے خیالات عالیہ کا تعلق ہے تو انہیں بھی درست معلومات فراہم نہیں کی گئیں کیونکہ سی این جی سٹیشنز کے درمیان دو کلو میٹر کا فاصلہ بالکل غلط ہے، ذرا جی ٹی روڈ پر چکر لگاکر دیکھیں تو ہر چند سوگز کے فاصلے پر سڑک کے دونوں جانب یعنی بالمقابل بھی گیس سٹیشنز مل جاتے ہیں، اسی طرح کوہاٹ روڈ، چارسدہ روڈ وغیرہ وغیرہ کی بھی یہی صورتحال ہے، بہرحال عوام کا کیا قصور کہ متعلقہ حکام ان گیس سٹیشنز کو تو ”بوجوہ” جو گیس فراہم کر رہے ہیں وہ ”شاں شاں” کرتے فراٹے بھرتی ہوئی گاڑیوں میں بھری جاتی ہے مگر گھریلو صارفین کو بڑی مشکل سے ملتی ہے وہ شوں شوں سے آگے کچھ بھی نہیں ہوتی، اس پر بھی عوام کو بغیر گیس کے گزارہ کرنے کے مشورے ؟!؟۔
قیامت چیخ اٹھی ہے”چال” پر اس فتنہ قامت کی
ارے ظالم قیامت کی ارے ظالم قیامت کی

مزید پڑھیں:  اپنے جوتوں سے رہیں سارے نمازی ہو شیار