مشرقیات

ٰیہ طاقت کاکھیل ہے یا یوں کہہ لیں ہاتھیوں کی جنگ ہے جس میںگھاس ہی نے کچلا جانا ہے اور خیر سے گھاس پھوس ہم ہی ہیں،پائوں تلے کچلے جاتے ہیں ،نذر آتش کیے جاتے ہیں اگلے ہی لمحے سب کچھ بھول کر ایک بار پھر زندہ باد مردہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے نئی معرکہ آرائی کا ایندھن بننے کو تیار ہو جاتے ہیں۔پھر بھی ہمیں گلہ ہوتا ہے کہ سیاستدان ہمیں الو بنا کر اپنا کام نکالتے ہیں ،او بھئی سوال یہ ہے کہ اتنا شوق کیوں پالا ہوا ہے آپ نے الوبننے کا۔سیاستدانوںکو معلوم ہوتا ہے نا کہ کون سا سودا کہاں سے ملے گا اور وہ کس قیمت پر خرید کر وزارت شزارت کے خواب کی تعبیر پائے گے۔یوں سمجھیں انہوں نے ایک منڈی سجائی ہوئی ہے اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ اس منڈی سے ہر حال میں انہیں ووٹ ملتے رہیں۔انسانوں کی اس منڈی میں وہ ہم سے جانوروں والا سلوک ہی پھر کرتے ہیں۔یہ بات بھی اب صاف ہے کہ اس ملک کے لوگوں کا مقدر سنوارنا کسی کی ترجیح ہی نہیں ۔سب کو خوشحالی کی راہ پر ڈال دیا گیا تو کس کی غربت سے فائدہ اٹھا کر سو کام صرف دو لقموں کے عوض لینے والے کیا اپنے ہاتھ سے کام کریں گے۔آپ کو یقین نہیں آئیگا لیکن یقین کر لیجیے کہ اس مہنگائی کے طوفانی دور میں بھی ایسے سیٹھ لوگ ہیں جو مجبور ومحتاج لوگوں سے پانچ دس مہینہ کے عوض دن بھر بیگار لیتے رہتے ہیں انہیں نہ تو ان غریب غربا کی صحت کی فکر ہے نہ خوف خدا،فکر ہے تو بس اپنا خزانہ بھرنے کی ،سنا ہے ان سیٹھ لوگوں کے عزیزوقریب کو جب غریب غربا کے ووٹ کی ضرورت پڑتی ہے تو اپنے یا بال بچوں کے پرانے جوتے کپڑے نکال کر سو سواحسان ان پر جتا کر ووٹ سمیٹے جاتے ہیں۔کہنے کامطلب یہ ہے کہ ہمارے حکمران چاہے سول ہوں یا نان سول سب کے سب ہم غریبوں کو صرف زندہ رکھنے کے لیے دو چار لقموں کا محتاج رکھتے ہیں ،برائے نام ہماری تعلیم وتربیت کا اہتمام کیا جاتا ہے ،وہ بھی غیرملکی فنڈز سمیٹنے کے لیے ۔جس قسم کا تعلیمی نظام وہ ہمارے لیے مخصوص کر چکے ہیں یہاں سے پڑھ کر نکلنے والوں کی کھوپڑی سے خوئے غلامی نہیں جاتی ۔کوئی دس بارہ جماعتیں پاس کر لے تو اپنی بھرتی کے لیے ان ہی لوگوں کی منت سماجت اور جاپلوسی پر مجبور ہوتا ہے جس کا حق خدمت اس کے باپ داداتک ادا کرتے آئے ہیں تاہم خدمت کا یہ سلسلہ جاری رہتا ہے ۔غریب کی نسلیں بھی یہاں غریب رکھنے کا بخوبی انتظام ہے ۔اس لیے ہاتھیوں کی لڑائی شروع ہو جائے تو اس کا چارہ” ظل الہی ” نہیںظل شاہ بنتے ہیں۔آپ کو یہ بات سمجھ پہلے آئی ہے نہ آئندہ آنے کا کوئی امکان ہے ۔سترسال سے زیادہ ہوگئے ہیں ایک ہی دائرے میں گھومتے ہوئے ،جناب کولہو کے بیل صاحب ایک بار پھردوچار لقموں کے لیے ٹھہر جائیں ،سیٹھ لوگوں کو پھر ووٹ کی ضرورت پڑ گئی ہے ووٹ ڈال کر اپنا کام کریں دائرے میں چکر کاٹتے رہیں۔

مزید پڑھیں:  ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے