ہم کس سمت جا رہے ہیں؟

گزشتہ روز ایک جانب زمان پارک لاہور میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی رہائش گاہ پر عدالتی احکامات کے بعد چھاپہ مارنے اور دوسری جانب اسلام آباد جوڈیشل کمپلیکس پر توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی حاضری کے موقع پر تحریک انصاف کے کارکنوں کی جانب سے ہنگامہ آرائی، توڑ پھوڑ اور پولیس کی شیلنگ کے ساتھ ساتھ مبینہ طور پر تحریک کے کارکنوں کی ”جوابی شیلنگ” نے ملکی تاریخ میں جس نئی صورتحال کو جنم دیا اس پر اظہار افسوس کئے بناء نہیں رہا جا سکتا۔ اس موقع پرعدالت نے جو رویہ اختیار کیا اس پر وزیراعظم، وزیر داخلہ، وزیرقانون، وزیر اطلاعات کے علاوہ بعض سیاسی رہنمائوں نے بھی تنقید کی ہے اور اسے ”قانون کے امیر اور غریب” کے درمیان امتیازی سلوک سے تشبیہہ دی ہے، وزیراعظم شہباز شریف نے عمران خان کے رویئے کو فاشزم قرار دیا، وزیر داخلہ نے کہا کہ عدالتی رویئے نے عمران خان کو مزید بدمعاش اور سرکش بنا دیا ہے، وزیر قانون نے کہا کہ انصاف ایک جیسا نہ ہونے کا تاثر دور ہونا چاہئے، شام کو عدالتیں کھول کر 99 مقدمات میں ضمانت دی گئی، عدلیہ ملزم کا رویہ بھی دیکھے، تحریک انصاف کے سربراہ سابق وزیراعظم عمران خان نے الزام عائد کیا ہے کہ میرے گھر پر حملہ کیاگیا، بشریٰ بیگم اکیلی ہیں، یہ پلان کا حصہ ہے تاکہ مجھے جیل میں ڈال کر انتخابی مہم سے روکا جاسکے، انہوں نے اپنے گھر پر سرچ آپریشن کے خلاف عدالت جانے کا اعلان بھی کیا، امر واقعہ یہ ہے کہ دنیا کے کس ملک میں ملزم عدالتوں میںحاضری سے بچنے کیلئے اس قسم کا رویہ اختیار کرتا ہے جس کے نتیجے میں پولیس اور سیاسی کارکنوں کے مابین تصادم کی نوبت آجائے؟ اس ضمن میں عدالتی رویئے پر جو اعتراضات سامنے آرہے ہیں وہ اپنی جگہ اہم تو ہیں تاہم اس حوالے سے قانونی اور آئینی ماہرین ہی بہتر رائے ظاہر کرسکتے ہیں، البتہ اس موقع پر ہنگامہ آرائی پر قانون کو اپنا راستہ بنانے پر کسی کو بھی اعتراض نہیںہونا چاہئے۔ تین روز قبل زمان پارک لاہور میں جو آپریشن کیا گیا اور عدالتی احکامات کے تحت عمران خان کو گرفتار کرکے عدالتی کارروائی کو آگے بڑھانے میں تحریک کے کارکنوں نے مزاحمت کرکے جس طرح قانون پر عمل درآمد کرنے میں رکاوٹیں ڈالیں، اس موقع پر اب یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ پولیس اہلکاروں کے پاس کوئی اسلحہ نہیں تھا صرف لاٹھیاں اورڈنڈے تھے جبکہ ان پر پٹرول بموں سے حملہ کیا گیا اور عمران خان کی رہائش گاہ سے فائرنگ کی آوازیں بھی آئیں، اسی طرح گزشتہ روز نہ صرف زمان پارک میں سرچ آپریشن کے دوران بھی پولیس اہلکار کسی اسلحے کے بغیر تھے بلکہ اسلام آباد جوڈیشل کمپلکیس میں بھی پولیس والوں کے پاس کوئی اسلحہ نہیں تھا اور حیرت زا امر یہ ہے کہ اگر پولیس نے ہنگامہ آرائی کرنے والوں پر آنسو گیس کے شیل پھینکے تو جواب میں مبینہ طورپر پولیس پر بھی شیل پھینکے گئے جو جوڈیشل کمپلیکس کے احاطے میں آگرے اور جس سے عدالت کے اندر بھی گیس داخل ہوگئی، اس ضمن میں دعوے یہ کئے جا رہے ہیں کہ مظاہرین کو یہ شیل اور ان کو پھینکنے والے گن گلگت بلتستان کے سکیورٹی اہلکاروں سے ملے تھے، اس الزام کی بہرطور تحقیقات کے بعد ہی تصدیق کی جاسکتی ہے کیونکہ یہ ایک ممنوعہ اسلحہ ہے جو صرف وزارت داخلہ ہی باہر سے حاصل کر کے متعلقہ وفاقی اور صوبائی سکیورٹی اداروں کو فراہم کرسکتا ہے، بہرحال اس ہنگامہ آرائی نے ملکی سیاسی صورتحال کو مزید گھمبیر بنادیا ے اور جتھوں کی سیاست پر متعدد سوال اٹھانا شروع کردیئے ہیں، اس موقع پر صدر عارف علوی کا ایک بیان سامنے آیا ہے جس پر تمام متعلقہ حلقوں کو سنجیدگی کے ساتھ سوچنا چاہئے، سوشل میڈیا پر جاری ایک بیان میں صدر مملکت نے کہا ہے کہ بڑے حادثے سے قبل تمام سیاستدان مل کر ملک کو بحران سے نکالیں، صدر مملکت نے سیاستدانوںکو موجودہ سیاسی بحران سے باہر نکلنے کے حوالے سے جو مشورہ دیاہے اس پر توجہ دینا بہت ضروری ہے تاہم جہاں تک سیاستداوں کے مل بیٹھ کر صلاح مشورہ کرنے کی بات ہے تو انتہائی معذرت کے سامنے کہنے دیجئے کہ وزیراعظم اور دیگر حکومتی زعماء نے بارہا ملکی معاشی صورتحال کے حوالے میثاق معیشت پر بات چیت کرنے کی دعوت دی اور اگرمیثاق معیشت پر مشاورت ہوتی تو یقیناً دیگر عوامل بھی ضرور زیر بحث آجاتے مگر تحریک انصاف کے رہنماء کا رویہ نیمے دروں، نیمے بیروں والارہا ہے ایک روز وہ ”سب سے” بات چیت کرنے پر تیار ہوتے ہیں تو اگلے ہی روز ایک بار پھر ”ڈاکو، چور، بدعنوان” کے الکابات بانٹتے ہوئے ان چوروں سے بات کرنے سے انکار کے بیانات جاری کرتے ہیں، یہ رویہ کسی بھی طور قابل قبول قرار نہیں دیا جاسکتا اور یہ سنجیدگی کے تقاضوں کے برعکس ہے، اس لئے اس ضمن میں خود صدر مملکت کو بھی صرف بیانات تک اپنی ذمہ داری کو محدود نہیں رکھنا چاہئے بلکہ آگے بڑھ کر قومی مفاہمت کیلئے اقدام اٹھاناچاہئے کیونکہ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا اور حالات پر پھر کسی کا قابو بھی نہیں رہتا، اس لئے بہتر یہی ہے کہ سیاسی قیادت اپنی ذمہ دایوں کا احساس کرکے موجودہ صورتحال سے باہر آنے کیلئے اپنی تمام صلاحیتیں استعمال کریں بصورت دیگر ایسا نہ ہو کہ خدانخواستہ ہم بعد میں کف افسوس ملتے رہ جائیں۔

مزید پڑھیں:  ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی حکمرانی