مشرقیات

چند دوست ساتھ نکلے ایک طرف کو چلے اتفاق کی بات دیکھا کہ وہاں کچھ اور لوگ پہلے سے موجود تھے ‘ یہ کافر وہ مسلمان!
وہ مسلمان تھے اس کا پتہ یوں چلا کہ نماز کا وقت آیا توان میںسے ایک شخص نے اٹھ کر اذان دی سنن ابن ماجہ میں ہے یہ وہ زمانہ تھا جب مکہ فتح ہوگیاتھا کافروں کی ٹولی میں ابو محذورہ بھی تھے بڑے جری بڑے لڑاکا اور بڑے شریر انہوں نے جو اذان کی آواز سنی تو اس کا ٹھٹھا اڑایا خوب خوب ا ذان کی نقل کی دور کھڑے ہو کر بڑی اونچی آواز میں اذان کے الفاظ دہرائے صاف معلوم ہوتا تھا کہ وہ مسلمانوں کامذاق اڑا رہے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آوازیں سنیں تو صحابہ کرام میں سے کچھ کوحکم دیا کہ ۔۔۔۔ جائو اور دیکھو کہ کون لوگ ہیں انہیں ساتھ لے آئو۔
مسلمان اس وقت بڑی تعداد میں تھے ٹھٹھا اڑانے والے تھوڑے تھے مسلمانوں نے انہیں جا پکڑا اور حکم نبوی کی تعمیل میں گرفتار کرکے سامنے لاکھڑا کیا ابو محذورہ اور ان کے ساتھی خاصے سہمے ہوئے تھے ۔ مگر وہ رحمت عالم کا دربار تھا ۔ آپۖ نے پہلا حکم قیدیوں کو یہ دیا کہ بیٹھ جائیں یہ لوگ جو پریشان تھے حکم کی پابندی میں بیٹھ گئے ‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔۔۔ تم میں سے وہ شخص کون ہے جس کی آواز بڑی اور بلند ہے پکڑے جانے والوں نے ابو محذورہ کی طرف اشارہ کیا حکم ہوا ہے ۔۔۔ بس انہیں یہاں چھوڑ دیاجائے ۔ باقی سب چلے جائیں۔
ابو محذورہ کے ساتھی اپنی جان بچا کر بھاگے وہ جب پکڑے گئے تو یہ سمجھ رہے تھے کہ ان کی جانیں گئیں اب تو انہوں نے سوچا ‘ ایک ابو محذورہ مارے جائیں گے ہم توچھوٹ گئے۔ لوگ برائیوں پرایک دوسرے کوخوب اکساتے ہیں لیکن جب وقت آن پڑتا ہے تو ساتھ چھوڑ جاتے ہیں بگاڑ اور برائیوں پراکسانے والے بدکردار ہوتے ہیں اور بدکرداروں کے لئے دھوکا دینا تو کوئی بات ہی نہیں ۔
ابو محذورہ کوحکم ملا کہ آنحصرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے کھڑے ہوجائیں انہوں نے سوچا چلو اب جان گئی مگر ارشاد ہوا کہ ۔۔ اذان دو ابو محذورہ بولے مجھے تو اذان کے الفاظ نہیں آتے ‘ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں تمہیں سکھاتا ہوں ابو محذورہ نے اذان دی تو سنن ابن ماجہ میں ہے سرور کشور رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں ایک تھیلی دی جس میں چاندی تھی اور پھر ان کے ماتھے اورسینے پر بڑی شفقت سے اپنا دست مبارک پھیرا ابو محذورہ کہتے ہیں ‘ اس وقت تک میرے دل میں نفرت اور غصے کے جذبات بھڑک رہے تھے لیکن اب مجھے محسوس ہوا کہ آپۖ بڑے شفیق و کریم ہیں ‘ تو میرے خیالات بدلنے لگے۔
آخر میں آپۖ نے فرمایا کہ ۔۔۔ تم جا سکتے ہو اللہ تعالیٰ تم پر رحمت نازل فرمائے۔ ابومحذورہ کوچھٹی مل گئی کہ واپس جائیں لیکن اب ابو محذورہ خود جانا نہ چاہتے تھے دشمن سے ٹھٹھا کرنے والے سے یہ سلوک ان پر ایسا اثر کر گیا کہ اسلام لا کر وہاں سے اٹھے پھر تڑپ تڑپ کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے درخواست کرنے لگے کہ ۔۔۔ میں مکے کا رہنے والا ہوں ‘ آپۖ مجھے کعبة اللہ میں مؤذن مقرر کردیں رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی یہ خواہش بھی پوری کر دی اور دنیا کومعلوم ہوا کہ برائی کا علاج برائی نہیں بھلائی ہے سورہ رعد میں ارشاد ربانی کا مطلب ہے ۔” نیکوکار وہ ہیں جو برائی کرنے والوں کے ساتھ نیکی کرتے ہیں”۔

مزید پڑھیں:  دہشت گردی میں اضافہ