آخر کب تک؟

بزرگ سیاستدان مسلم لیگ( ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین نے کہا ہے کہ پچاس سالہ سیاسی سفر میں کبھی ملک کے اتنے پیچیدہ حالات نہیں دیکھے، حکومت نیشنل ڈائیلاگ شروع کرے ناراض رہنمائوں کو خود جاکر منائوں گا۔ چوہدری شجاعت حسین نے کہا کہ سیاستدان جلتی آگ پر پانی ڈالیں،ملک جلائو، گھیرائو کا متحمل نہیں ہو سکتا۔دوسری جانب وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ عمران خان کی جانب سے اسمبلیاں توڑنے کے نتیجے میں ایسا الیکشن ہونے جا رہا ہے جو آئین میں دی گئی اسکیم کے مطابق نہیں ہو رہا، ان صوبوں کے الیکشن کے نتائج کو کوئی تسلیم نہیں کرے گا، یہ الیکشن ایک جھگڑا اور فساد کو جنم دے گا، ہماری کوشش یہی ہے کہ اس پورے ملک میں الیکشن عبوری سیٹ اپ کے تحت ایک ہی بار ہوں۔دریں ا ثناء پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فرخ حبیب نے کہا ہے کہ حکومت اکٹھے الیکشن کروانا چاہتی ہے تو ہم آئین میں ترمیم کے لئے بیٹھنے کے لئے تیار ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہم پرامن انتخابات کا انعقاد چاہتے ہیں۔چوہدری شجاعت حسین بڑے زیرک سیاستدان ہیں اور ہ غیر ضروری ایک لفظ بھی نہ بولنے کی شہرت رکھتے ہیں سیاسی بحرانوں میں وہ جب بھی متحرک ہوئے ہیں کوئی نہ کوئی نتیجہ ہی نہیں بلکہ مثبت نتیجہ برآمد ہوا ہے اب بھی ان کی تجویز سے بجا طور پر امید کی جا سکتی ہے کہ ان کی تجویز پر ساری سیاسی جماعتیں لبیک کہیں گی حالات جس موڑ پر پہنچ چکے ہیں وہاں سے سوائیے واپسی اور مفاہمت کے کوئی اور راستہ نظر نہیں آتا یہ ملک غارتگری کی سیاست کے لئے نہیں بنا اور نہ ہی کسی جمہوری حکومت کو ملک کو دائو پر لگانے کی اجازت دی جاسکتی ہے نیز ملکی مسائل خواہ وہ معاشی ہوں یا سیاسی اتنے گھمبیر ہیں کہ کوئی بھی سیاسی جماعت اس سے اکیلے نہیں نمٹ سکتی صرف ان حالات ہی کا تقاضا مفاہمت کا نہیں بلکہ احسن انداز میں انتخابات کے انعقاد اور حکومت سازی و حکومت چلانے کے لئے ماحول کامعتدل ہونا ضروری ہے جو مذاکرات اور بات چیت کے بغیر ممکن نہیں معروضی حالات کے تناظر میں وزیر داخلہ کا بیان خلاف واقعہ نہیں مگر کیا حالات کو بہتر بنانے کی ذمہ داری پوری کرنے کی بجائے حالات کی اس قدر مایوس کن حالات پیش کرنا مناسب ہے اس پر وزیر داخلہ کو ایک بارغور رضرور کرنا چاہئے قبل ازیں گورنر خیبر پختونخوا بھی صوبے کے حالات کو اس انداز میں پیش کر چکے ہیں جس کا تذکرہ ہی کرنا مناسب نہ ہو گا ملک کے وزیر داخلہ اور ایک صوبے کا گورنر ہی اگر قبل از وقت حالات کی بھیانک تصویر پیش کریں اور ان کی ان سیاسی جماعتوں سے وابستگی ہو جوا نتخابی اکھاڑے میں مرد میدان بننے کی دعویدار ہوں تو پھر انتخابات کے پرامن انعقاد کو یقینی بنانے میں خودان کا کیا کردار ہو گا وزیر داخلہ تو بہرحال نگران حکومت کو ذمہ داری سونپ جائیں گے مگر خیبر پختونخوا کے گورنر اپنے عہدے کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کر سکتے ہیں اور انتخابی صورتحال پر اثر انداز ہوسکتے ہیں اس وقت گورنرہائوس خیبر پختونخوا کو جس طرح سیاسی اکھاڑہ بنانے اور نگران حکومت پر اثر انداز ہونے کی شکایات عام ہیں ان حالات میں صوبے کی طاقتور سیاسی جماعت کی طرف سے مزاحمت کی صورت میں صورتحال خراب ہوسکتی ہے اور شاید منصوبہ و مطلوب بھی یہی ہو اس طرح کے اقدام اور آئینی عہدیدار کی اپنے حلف سے انحراف بدقسمتی ہو گی بہرحال خوش آئند امر یہ ہے کہ تحریک انصاف کی جانب سے بالاخر ایک معقول موقف ا ختیار کیاگیا ہے اور ان کی جانب سے اکٹھے انتخابات کے انعقاد کے لئے آئین میں ترمیم کے لئے مل بیٹھنے کی پیش کش کی گئی ہے اس موقف پرثابت قدمی ا ختیار کرنا تحریک انصاف کی قیادت کے لئے اس لئے بھی ضروری ہے کہ حالیہ دنوں میں ان کی جانب سے اختیار کردہ رویہ انگشت نمائی کا باعث بن رہا اور جسے مزید جاری رکھا گیا تو ملک و قوم کے مزید نقصان کے ساتھ ساتھ خود ان کی جماعت کے حوالے سے بھی ا چھے تاثرات کا باعث نہ ہوگا۔اس طرح کا رویہ ان کی مشکلات میں اضافے ہی کا باعث بن سکتا ہے جس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے بہرحال قابل اطمینان امر یہ ہے کہ چوہدری شجاعت حسین کی شخصیت اتحادی جماعتوں اور تحریک انصاف دونوں کے لئے محترم اور قابل قبول ہے ان کی ثالثی سے توقع ہے کہ موجودہ سیاسی بحران اور انتخابی بحران دونوں کا تمام فریقوں کے لئے قابل قبول حل نکل آئے گا۔اس وقت سیاسی اختلافات کے باعث ملک کی جو صورتحال ہے وہ ہر محب وطن پاکستانی کے لئے سخت تشویش کی بات ہے سیاستدانوں کو اب ضد اور انا ترک کرکے مذاکرات کا آغاز کرنا چاہئے اور اختلافات کو مفاہمت اور خیر خواہانہ انداز میں طے کیا جانا چاہئے۔

مزید پڑھیں:  پاکستان میں'' درآمد وبرآمد'' کا عجب کھیل