کوئلے کے کان

پختونخوا ، 31 برس کے دوران 859 کوئلہ کان کن جان بحق ،230 زخمی ہو ئے

ویب ڈیسک: کوئلے کے کان گزشتہ 31 برس کے دوران خیبر پختونخوا میں 859 مزدوروں کو نگل گئے ،230 مزدور زخمی بھی ہو ئے ،ایبٹ آباد ، ہری پور، مانسہرہ ، درہ ادم خیل، کرک ، پشاور ، مردان ، ڈی آ ئی خان ، مومند ، بونیر ، چترال ، سوات اور کو،ستان میں 1991 سے 2022 تک کل 791 واقعات رونما ہو ئے، ضلع کوہستان خوش قسمت ضلع قرار جہاں کی کوئلہ کانوں میں کو ئی واقعہ رونما نہیں ہوا ، کوہاٹ درہ ادم خیل سب سے زیادہ متاثر ، درہ آدم خیل میں 232 واقعات میں 304 مزدور چل بسے ، سال 2020 کے دوران سب سے زیادہ 99 اور سال2021 کے دوران 80 مزدور موت کے منہ میں چلے گئے جبکہ زیادہ واقعات سال 2021 میں رپورٹ کئے گئے
کان کنی کیلئے شانگلہ کے مزدور زیادہ مشہور ہیں ان اموات میں بھی سب سے زیادہ تعداد شانگلہ کی ہے ،ضلع سوات میں 26 حادثات میں 23 مزدور جاں بحق 7 زخمی ہو ئے ، چترال میں دو واقعات میں چار مزدور زخمی ، ضلع بونیر میں 152 واقعات رونما ہو ئے جس میں 153 مزدور جاں بحق 42 زخمی ہو ئے ، ضلع مردان میں 82 واقعات میں 84 مزدور جاں بحق ،12 زخمی ، پشاور متنی میں 205 واقعات میں 149 مزدور جاں بحق ،116 زخمی ہو ئے ، کوہاٹ درہ آدم خیل میں 232 واقعات میں 304 مزدور جاں بحق 23 زخمی ہو ئے ، ضلع کرک میں دس واقعات میں 15 جاں بحق ایک زخمی ، ڈی آ ئی خان میں سات واقعات میں آ ٹھ مزدور جاں بحق ، ضلع مومند میں سات واقعات میں 32 مزدور جاں بحق سات زخمی ، ایبٹ آ باد میں 41 حادثات میں 39 مزدور جاں بحق 16 زخمی ، مانسہرہ میں گیارہ حادثات میں 37 مزدور جاں بحق جبکہ ہری پور میں 16 حادثات میں 15 مزدور جاں بحق اور 2 زخمی ہو ئے، 2003 میں درہ آدم خیل میں کوئلے کے کان دریافت ہوئے جہاں 18 ہزار تک کان کن کام کرتے ہیں چونکہ یہاں پر ان مزدوروں کیلئے حفاظتی اقدامات نہیں
اس لئے کان کن دم گھٹنے اور سلائڈنگ کے باعث موت کا شکار ہو ئے ہیں بعض کو اغواء کر نے کے بعد قتل کیا گیا ، سماجی ورکروں کا کہنا ہے کہ بد قسمتی سے لیبر کانپینسیشن ایکٹ 1923 لاگو کیا گیا نہ ہی لیبر ایکٹ 2015 میں ترامیم کا دعویٰ عملی بنایا جا سکا ہے۔

مزید پڑھیں:  ایرانی صدر ابراہیم رئیسی آج لاہور اور کراچی کا دورہ کرینگے