”تیرا لُٹیا شہر بھنبھور نیں سسیے بے خبرے ”

75سال کا عرصہ قوموں کے سنبھلنے اور سدھرنے کے لئے اپنی سمت کا تعین کرنے کے لئے اور اس راہ میں ڈگمگاتے لڑکھڑاتے قدموں کاآغاز کرنے کے لئے بہت ہوتا ہے۔ایسا کم ہی ہوا ہے کہ پچہتر برس کا ہر قدم پیچھے کی طرف زوال اور تنزل کی طرف اُٹھا ہو۔پاکستان کے ساتھ وارداتوں کا آغاز روز اول سے ہوا۔۔چند برسوں میں اس کے نمبر ون اور نمبر ٹو منظر سے ہٹ گئے اور ان کے ہٹنے کا انداز کچھ غیر فطری سا تھا ۔اگلے چند برسوں میں وفاقی جمہوریت بھی چھن گئی اور پارلیمانی نظام بھی ختم ہوگیا ۔زندگی کی گاڑی کچھ اور آگے چلی توچوبیس سال بعد ہی وفاق بھی چھن گیا اور ملک کا بڑا حصہ اور بڑی آبادی مشرقی پاکستان بھی الگ ہوگیا اور ملک دوٹکڑوں میں بٹ گیا۔اس کے بعد سکون کا سانس لے کر کہا گیا کہ شکر ہے پاکستان بچ گیا۔اگلے چند برسوں میں اس ملک کی معیشت کو دیمک لگنا شروع ہوگیا ۔قومیائے جانے کے نام پر اس کی صنعت کی تباہی شرو ع ہوئی اور صنعت کا پہیہ رکاوٹوں کا شکار ہونے لگا۔ملک کی مجموعی قومی پیداوار کم ہونے لگی اور قرضوں پر انحصار بڑھنے لگا ۔پچہتر سال بعد اب ملک کا خزانہ خالی اور ایک کشکول باقی رہ گیا ہے۔اس خالی خزانے پر اُلو بول رہے ہیں اور کوئی بھی امداد دینے کو تیار نہیں۔اس عرصے میں کئی نسلیں پروان چڑھتی رہیں ۔کچھ نوشتہ دیوار پڑھ کر دور دیس سدھارتی چلی گئیں کچھ نے ایک موہوم امید پر ملک میں رہنے کو ترجیح دی ۔اسی دوران نسل نو کے پاس ابلاغ کے جدید ذرائع آتے رہے۔دیہات وقصبات تک انٹرنیٹ پہنچ گیا ۔اب انٹرنیشنل پولیٹکس اور اکانومی کو سمجھنے کے لئے لائبریریوں میں سر کھپانے اور اُستاد جی کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرنے کی ضرورت نہیں رہی۔موبائل ایپس نے اطلاع اور ابلاغ کا کنٹرول اب ایک فرد کے اپنے ہاتھ میں دے دیا ہے۔اس سے نوجوانوں کے شعور کی سطح بلند ہوئی ہے۔پرائیویٹ ٹی وی چینلوں نے ابلاغ کے انقلاب کی بنیاد رکھی مگر جلد ہی یہ انقلاب چینلوں سمیت ہائی جیک ہوگیا۔پرائیویٹ میڈیا فرمائشی بیانئے گھڑنے کی مشین بن گیا ۔عوام نے اس سے منہ موڑ لیا کیونکہ عوام کے پاس گھڑے گھڑائے بیانیوں پر اعتبار کرنے کے علاوہ بھی ایک اور ذریعہ تھا وہ آزاد معلومات کے لئے انٹرنیٹ ۔انٹرنیٹ نے عوام کے کام کو آسان بنادیا۔اپنے ملک اور اپنے گروپیش اور انفرادی حالات پر کڑھنے والے نوجوانوں کا غصہ اندر ہی اندر جمع ہوتا رہا ۔لوگوں نے کیلکیو لیٹر نکال کر حساب کرنا شروع کیا پچہتر برس کس نے زیادہ حکومت کی ۔ظاہر ہے کہ جو بربادی آج نظر آتی ہے ایک دوبرس کا قصہ نہیں پچہتر برس کی کہانی ہے۔اس کیلکیولیشن کی بنیاد پر آج نوجوانوں کے جذبات کا آتش فشاں لاوا اُگل رہا ہے۔ جس پر پنجابی کا یہ بول صادق آتا ہے تیرا لٹیا شہر بھنبھور نیں سسیے بے خبرے (بے خبر سسی تیرا شہر بھنبھور تو کب کا لُٹ چکا ہے )۔نسل ِ نو میں اچھے دنوں کی امید باقی نہیں رہی کیونکہ ریاست کے کارپردازان کے طور طریقے پرانے ہیں۔یوں عملی طور پر ملک نوے بلکہ ستر کی دہائی میں پہنچ چکا ہے۔نئی نسل فرضی بیانیوں ،مصنوعی مسیحاوںیکطرفہ فیصلوں کے طرز کہن کو قبول کرنے سے انکاری ہے۔اس بے چینی اور اس نارضگی کا ایک فرد نے اونر شپ دی ہے۔اس عرصے میں پاکستان کی پرانی تاریخی حقیقتیں نئے
انداز سے سامنے آرہی ہیںجس کا ثبوت یہ ہے کہ گیارہ ماہ میں سوشل میڈیا پر سابق پاکستانی شیخ مجیب الرحمان کو معصوم ثابت کردیا گیا تو سابق لیاقت علی خان کو مظلوم ۔ یہی حالات بحرانی شکل میں ڈھل گئے ہیں۔اب بھی وقت ہے کہ قوم اور سیاست دانوں کو مل جل کر درمیانی راستہ نکالیں بصورت دیگر ملک کا سیاسی عدم استحکام بڑھتا ہی چلا جائے گا ۔فی زمانہ عوام کی رائے جانچنے اور تولنے کا پیمانہ انتخابات ہیں ۔جدید جمہوریت کا پیمانہ بھی انتخابات ہیں ۔اس کے سوا جمہوریت کا تصور محال ہے ۔انتخابات کے بغیر کوئی نظام تو قائم ہوسکتا ہے مگر یہ جمہوری ہرگز نہیں کہلا سکتا۔پاکستان میں اس وقت ایک کمزور اور لڑکھڑاتی سی جمہوریت ہے جو معاشرے کو متحد کرنے کی بجائے منقسم کرنے کا باعث ہے اگر انتخابات ٹل جاتے ہیں تو پھر یہ بھرم بھی قائم نہیں رہے گا ۔اس کے جمہوریت کے لوٹ آنے کی امید باقی نہیں رہے گی ۔پاکستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ ایک بار جمہوریت کی گاڑی پٹڑی سے اُتر گئی تو اُسے دوبارہ پٹڑی پر آنے میں دس سال یا اس سے کچھ زیادہ ہی وقت لگا ہے ۔ان میں وہ حکمران بھی رہے ہیں جو نوے دن میں انتخابات کرانے کے وعدوں کے ساتھ برسر اقتدار آئے مگر نوے دن گیارہ برس پر محیط ہوگئے ۔وہ بھی آئے جو چند برس میں وردی اُتارنے کا وعدہ تو کر بیٹھے مگر بعد میں وردی کو اپنی کھال قرار دے کر کرسی سے چمٹ اور لپٹ کر رہ گئے ۔ہر بار یہ حقیقت بھی سامنے آئی کہ جمہوریت کی بساط جہاں سے لپٹی تھی ماہ وسال کی گردش کے بعد وہیں سے بحال کرنا پڑی ۔جنرل ضیاء الحق کے گیار ہ سالہ اقتدار کے بعد وہی پیپلزپارٹی برسراقتدار آئی جس کی حکومت کی بساط مارشل لا نے لپیٹی تھی ۔جنرل مشرف کی فوجی حکومت کے بعد بھی جزوی طور پر ہی سہی مگر وہی نوازشریف
اقتدار میں آئے جن کا اقتدار لپیٹ کر مشرف نے اپنی حکمرانی کی بساط بچھائی تھی۔اس بار بھی ملک میں کشیدگی کا گراف آسمان سے باتیں کر رہا ہے۔یہ کشیدگی سیاسی نظام اور جمہوریت کی عمارت کی بنیادوں میں پانی بن کر داخل ہو رہی ہے ۔حکومت انتخابات سے فرار کے راستے ڈھونڈ رہی ہے ۔مقبول اپوزیشن سڑکوں پر ہے اور انتخابات کے مطالبے سے سرِ مُو انحراف کرنے اور پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ۔اس طرح سیاست میں ایک خلاء آرہا ہے ۔یہ خلا اس وقت مزید بڑھ جائے گا جب دوصوبوں کی نگران حکومتوں کی آئینی مدت ختم ہو جائے گی ۔یہ دوحکومتیں ماردھاڑ اور پکڑ دھکڑ کی خاطر قائم نہیں ہوئی تھیں بلکہ ان کا واحد مقصد دو صوبوں میں انتخابات کرانا تھا ۔حکومت پہلے دوصوبوں کے انتخابات سے راہ ِفرار اختیار کر رہی ہے اس کے بعد کوئی اورقوت عام انتخابات کا کھیل بھی خراب کر سکتی ہے ۔اس طرح جمہوریت کی گاڑی کے پٹڑی سے اُترنے کے خدشات پوری طرح موجود ہیں۔وقت بند مٹھی سے ریت کی مانند نکلتا جا رہا ہے ۔سیاست دانوں کو ملک کو اس بند گلی سے نکالنے کے لئے فوری مذاکرات کا آغاز کرنا چاہئے اور انتخابات کے یک نکاتی ایجنڈے پر متفق ہوجانا چاہئے ۔حکومتی راہنما ایک انجانے خوف کا شکار ہیں۔اس خوف کا تعلق احتساب اور نیب کے کیسز کی بحالی سے ہے۔اس خوف میں ملک کا حلیہ بگڑ رہا ہے اور ملک کے حقیقی مسائل جن میں سیکورٹی اقتصادی معاملات شامل ہیں نظر انداز ہورہے ہیں ۔پاکستان کی سڑکوں پر آئے روز پیش آنے والے مناظر بین الاقومی دنیا میں پاکستان کا کوئی اچھا تاثر قائم نہیں کررہے ۔پاکستان انسانی حقوق اورشہری آزادیوں کے حوالے سے اعتراضات کا نشانہ بن رہا ہے ۔دردِدل رکھنے والے ذمہ داروں اور سیاست دانوں کو ملک کو اس بھنور سے نکالنے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔

مزید پڑھیں:  جائیں تو جائیں کہاں ؟