مشرقیات

کوئی مسئلہ درپیش ہوا تھا جس کا حل ڈھونڈنا تھا مشورہ کرنا ہمیشہ اچھا ہوتا ہے چنانچہ کچھ لوگ سرجوڑ کر بیٹھے اور مسئلے کا حل سوچنے لگے ایک بزرگ کے ذہن میںاس کا حل آیا تو انہوں نے ارشاد فرمایا کہ اس مسئلے کو ایسے حل کیا جائے یہ سن کر حاضرین میں سے کسی نے اعتراض کیا کہا۔۔ اس سے مسئلے کا صحیح حل نہ نکلے گا۔
حل پیش کرنے والے بزرگ نے فرمایا۔۔ اگر میری رائے تمہیں پسند نہ ہو تو میرے بھائی تم خود کوئی اچھی رائے بتائو کہ یہ مسئلہ حل ہو جائے ۔
رائے مشورہ بہت اچھی بات ہے قرآن اس کا حکم دیتا ہے بشرط یہ کہ آزادی سے بات چیت ہوسکے اور آدمی کھل کر اپنی ا یماندارانہ رائے بیان کرسکے اگر ایسا نہ ہو تو پھر بات جہاں کی وہاں رہ جاتی ہے اور زبان سچ بولنے کے لئے ترستی رہتی ہے سرور کشور رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام سے مشورہ لیا کرتے تھے انہیں رائے دینے میں پوری آزادی ہوتی تھی۔
یہ امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور کی بات ان ہی کے رائے کے مقابلے میں حاضرین میں سے ایک آدمی نے اپنی رائے دی تھی۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس کی رائے پسند آئی اور اس درجہ پسند آئی کہ انہوں نے فرمایا میں بڑی خوشی سے تمہارے رائے قبول کرتا ہوں۔
اسلام ہمیں یہی تعلیم دیتا ہے جن میں ضد پن اور غرور نہیں ہوتا وہ سچی بات خوشی سے سن لیتے ہیں سچی اور اچھی اگر دشمن کی زبان سے بھی نکلے تو اسے سن لینا چاہئے حکم ہے جب کوئی تم کونصیحت کرے تو یہ نہ دیکھو کہ کون نصیحت کر رہا ہے یہ دیکھو کہ کیا بات کہی جارہی ہے اگربات اچھی ہو تو قبول کو ہٹ دھرمی تعصب کی نشانی ہے اور تعصب تباہی کی علامت ہے آدمی میں حقیقت پسندی اور انکساری ہو یہ بڑی خوبی کی بات ہے ۔ امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے دور خلافت میں راستے سے گزر رہے تھے اتفاق کی بات کہ راستے میں چلتے چلتے کسی کا پیر ان کے پیر کے نیچے آگیا گلی تنگ تھی گزرنے والے بہت تھے پیر پر پیر پڑ گیا تو کوئی غیر معمولی بات نہ تھی لیکن وہ شخص جس کا پیر کچلا گیا غصے میں بھر کر بولا۔۔ دیکھ کے چلو اندھے تو نہیں ہو وہ ایک معمولی آدمی تھا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ مسلمانوں کے امیر تھے اور امیر بھی ایسے کہ شام مصر ایران کا سارا علاقہ ان کے تحت تھا ہندوستان اور پاکستان کے مجموعی رقبے سے بھی بڑی مملکت تھی دونوں کا کوئی مقابلہ نہ تھا نہ دینی حیثیت میں نہ دنیاوی حیثیت میں فقیر کو غصہ بہت جلد آگیا تھا غصے کا جواب اگر غصے میں دیاجائے تو بات بڑھ جاتی ہے حکم ہے بہادر وہ ہے جو غصہ کو روکتا ہے دوسروں کے قصوروں کو معاف کردیتا ہے وہ فقیر تھا توفقیر مگر سرمیں اس کے بھی غرور کا سودا تھا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جن کو اللہ تعالیٰ نے انہیں ڈرنے والا دل دیاتھا انہوں نے اس فقیر سے کہا ۔۔ بھائی معاف کرنا میں اندھا تو نہیں ہوں غلطی سے میرا پیر تمہارے پیر پر پڑ گیا تم کو بڑی تکلیف ہوئی میں اس کے لئے شرمندہ ہوں۔
اوچھا اور کم ضرف ہمیشہ اکڑتا ہے عقلمند اور شریف نرم مزاج کا ہوتا ہے آپ نے دیکھا ہوگا میوہ بھری ڈالی ہمیشہ جھکی رہتی ہے ۔

مزید پڑھیں:  پاک ایران تجارتی معاہدے اور امریکا