حلوائی کی دکان۔۔

صوبہ خیبرپختونخوا کے نگران وزیر اطلاعات نے انکشاف کیا ہے کہ سابق پی ٹی آئی حکومت نے جاتے جاتے ہنگامی بنیادوں پر پانچ ہزار سوشل میڈیا انفلوئینسرز بھرتی کئے جوآج بھی 25سے 50 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ وصول کر رہے ہیں جبکہ ان کو لیپ ٹاپ بھی دیئے گئے (جن کی مالیت مبینہ طور پر کروڑوں روپے بنتی ہے) ان لوگوں کا کام پی ٹی آئی کے ٹرینڈز میں حصہ لینا ‘ سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کی پروجیکشن اور مخالف سیاسی جماعتوں کی کردار کشی ہے ‘ اس حوالے سے نگران وزیر اطلاعات نے اپنے سیکرٹری سے جو استفسارات کئے اور جوجوابات سامنے آگئے ہیں ان کی تفصیل میڈیا پر موجود ہے جورونگٹے کھڑے کر دینے کے لئے کافی ہیں ‘ ویسے توسابق حکومت کے گزشتہ نو برس کے اور ایسے اقدامات بھی ہیں جو تحقیق طلب کے زمرے میں شامل ہوتے ہیں اور جن کو عدلیہ سے حکم امتناعی کے ذریعے تحقیقات سے تادم تحریرمبرا رکھنے کے اقدام اٹھائے گئے ہیں ‘ تاہم موجودہ خبر کے مطابق اپنے مخالفین پر کیچڑ اچھالنے ‘ ان کی کردار کشی کرنے اور اپنی جماعت کے ٹرینڈز چلانے کے لئے جس طرح صوبائی خزانے کو مبینہ طور پرلوٹنے کی کوشش کی گئی ہے اسے محاورے کی زبان میں دادا جی کی فاتحہ اور حلوائی کی دکان ہی قرار دیا جاسکتا ہے ‘ بدقسمتی سے تحریک ا نصاف کے سربراہ کی جانب سے سیاسی مخالفین کو چور ‘ ڈاکو ‘ بدعنوان کہنے اور ان کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے کے بیانات کے تناظر میں جب قومی خزانے کو اس طرح ٹیکہ لگانے کے اقدام کودیکھا ‘ جانچا اور پرکھاجائے تو حیرت ہوتی ہے ‘ یہ تو بالکل وہی صورتحال ہے کہ دوسروں کی جانب ایک انگلی سے اشارہ کرنے والوں کو باقی کی انگلیاں اپنی سمت اشارے کرنے کا احساس ہی نہیں ہوتا ‘ ایک سوال البتہ موجودہ نگران حکومت سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ جب اس حوالے سے حقائق منظر عام پرآچکے ہیں تو ان پانچ ہزار افراد کو اب تک(اگر ایسا ہے تو) صوبائی خزانے کا استحصال کرنے کی اجازت کیوں دی جا رہی ہے اور ان کو کس جواز کے تحت گھروں میں بیٹھ کر 25 سے 50 ہزار روپے ادا کئے جارہے ہیں جبکہ صوبائی حکومت کو ماضی قریب میں ملازمین اور پنشنرزکی ادائیگیوں کے حوالے سے بھی سخت مشکلات کا سامنا رہا ہے بلکہ ایک بار تو وفاق نے خصوصی گرانٹ دے کر ملازمین کو تنخواہیں اور پنشن ادا کرنے کی سہولت سابق حکومت کے دور میں گزشتہ برس ہی دی تھی ‘ اس لئے نہ صرف ان کے حوالے سے کوئی پالیسی مرتب کی جائے بلکہ ان سے سرکاری لیپ ٹاپ بھی واپس لئے جائیں جوقومی خزانے سے خریدے گئے ہیں اور جن سے سرکاری کام لینا ضروری تھا نہ کہ حکومت مخالفوں کے خلاف ٹرینڈز چلانے کے لئے بھاری رقم خرچ کی گئی۔

مزید پڑھیں:  آبیل مجھے مار