بعد ازمرگ واویلا

وفاقی حکومت نے افغان شہریوں کی نقل وحرکت سے متعلق پالیسی تیار کرلی ہے ‘ وزارت داخلہ کے مطابق افغان باشندوں کی نقل و حرکت میں اندراج سے مشروط کر دی گئی ہے’ افغان باشندوں کو صوبوں اور ایک شہر سے دوسرے شہر جانے کے لئے انٹری کرانا لازم ہوگا اور متعلقہ تھانے کو پہلے سے آگاہ کرنا ہو گا ‘ ساتھ ہی نئے شہر جانے کا مقصد اور پتے سے بھی آگاہ کرنا ہوگا’ ذرائع کے مطابق تمام افغان باشندوں کا ڈیٹا ایک ہی جگہ جمع کیا جائے گا ‘ باڈر پر انٹری کے نظام کو مؤثر بنایا جائے گا ویزہ یا رہائشی اجازت نامے کی مدت ختم ہونے پرافغان باشندوں کو واپس جانا ہو گا۔ جہاں تک مجوزہ پالیسی کاتعلق ہے دنیا کے تقریباً ہر ملک میں ایسا ہی نظام رائج ہے اور کوئی بھی غیر ملکی باشندہ اس قسم کے قوانین سے مبرا نہیں ہوتے مگر پاکستان غالباً واحد ایسا ملک ہے جہاں افغان سوویت جنگ اور اس سے پہلے انقلاب ثور کے وقت سے لاکھوں افغان باشندوں کے”ریوڑ کے ریوڑ” بناء کسی شرط اور قانونی ضابطوں کے پاکستان میں ہانک کر نہ صرف لائے گئے بلکہ ان سے کسی قسم کا تعرض تک روا رکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی ‘ یہاں تک کہ ان میں قانون شکن عناصر سے بھی ہمارے معاشرے میں قانون شکنی کے حوالے سے اگر تھانوں میں اس دور میں شکایات درج کی گئیں تو ضیاء الحق کے احکامات کے تحت یہ ساری رپورٹیں بھی کوڑے دان میں پھینک دی گئیں ‘ اس کے بعد ان کے حوصلے کس قدر بلند ہوئے؟ اس کی تفصیل بھتہ خوری ‘ اغواء برائے تاوان ‘ اجرتی قاتلوں کی منفی سرگرمیوں سے ہویدا ہے ‘ پاکستان کے ساتھ افغان مہاجر ایران میں بھی پناہ گزین ہوئے لیکن وہاں انہیں کیمپوں تک سختی سے محدود رکھا گیا اور جولوگ کسی ضرورت سے کیمپوں سے باہر آتے تو واپسی پر رپورٹ دینا اس پرلازم ہوتا ‘مگر ہمارے ہاں ان کو شتر بے مہار بنا کرمعاشرے کو تلپٹ کرنے کی مکمل آزادی دی گئی اور مستزاد یہ کہ ہمارے اداروں خصوصاً نادرا اور پاسپورٹ کے محکموں کے اندر موجود گنتی کے بدعنوان عناصر نے بھاری رقوم کے عوض انہیں قومی شناختی کارڈز اور پاسپورٹ جاری کرکے بیرون ملک بھی پاکستان کو بدنام کرنے میں دست تعاون بڑھایا ‘ آج ہزاروں کی تعداد میں افغان باشندے پاکستانی پاسپورٹ کے ذریعے پاکستان کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں ‘ جبکہ اندرون ملک لاکھوں کی تعداد میں یہ لوگ جائیدادوں کے مالک اور کاروبار پر قابض ہوچکے ہیں ۔ اس لئے اتنی مدت کے بعد کہ اب ان کی تین نسلیں پاکستان میں پیدا ہو چکی ہیں ان کو کسی قاعدے ضابطے میں لانے کی کوششیں کس حد تک کامیاب ہو سکیں گی ؟ یہ ایک اہم سوال ہے جس کا جواب بھی ضروری ہے ۔

مزید پڑھیں:  بھارت کا مستقبل امریکہ کی نظر میں