ہنسیں یا روئیں ان باتوں پہ ؟

اب کہا جارہا ہے کہ آرمی چیف اور مسلح افواج کے خلاف جاری مہم کے کرداروں سے سختی کے ساتھ نمٹیں گے گزشتہ روز وزیراعظم شہباز شریف نے بھی اس سے ملتا جلتا بیان دیا جس کے جواب میں پی ٹی آئی کے مرکزی نائب صدر فواد حسین چودھری کاکہناہے کہ ہم آرمی چیف کا احترام کرتے ہیں کوئی مہم نہیں چلائی، وزیراعظم کے بیان کا مقصد عوام اور فوج کے درمیان فاصلے پیدا کرنا ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان نے بھی گزشتہ شام اپنے ویڈیو لنک بیان میں کہا کہ ملک بھی میرا ہے اور فوج بھی میری۔ پی ڈی ایم ہمیں فوج سے لڑانے کی کوشش کررہی ہے۔ پی ٹی آئی کے ذمہ داران کے وضاحتی بیانات کے برعکس گزشتہ برس اپریل سے تحریک انصاف کے جلوسوں اور مظاہروں میں جو کہا جارہا ہے وہ ہر کس و ناکس پر دوچند ہے ابھی چند دن قبل ایک غیرملکی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا اسٹیبلشمنٹ ملک چلارہی ہے جب میں اسٹیبلشمنٹ کا نام لیتا ہوں تو اس کا مطلب آرمی چیف ہے ” ۔ گزشتہ سے پیوستہ روز عمران خان کی زمان پارک والی رہائش گاہ کے باہر اور لندن میں برطانوی وزیراعظم کی اقامت گاہ کے باہر احتجاج کرنے والے تحریک انصاف کے کارکنوں کی نعرہ بازی غالبا مقبوضہ کشمیر پر قابض بھارتی فوج کے خلاف تھی۔ اپنے دور اقتدار میں توہینِ آرمی کا قانون بنانے والی جماعت پچھلے ایک برس سے ملٹری اسٹیبلشمنٹ پر جس طرح کے الزامات لگاتی آرہی ہے اس سے ملک میں فوج مخالف فضا بنی قبل ازیں پچھلے سال اپریل سے قبل فوج کے سیاسی کردار پر شائستہ انداز میں تنقید بھی پی ٹی آئی کے ذمہ داران اور ہم خیالوں کے نزدیک غداری کے زمرے میں شمار ہوتی تھی۔ یہ امر اپنی جگہ حقیقت ہے کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی کردار اور مختلف وقتوں میں انتخابی منیجمنٹ ، ملک میں چار بار مارشل لا لگانے اور دیگر چند وجوہات کی بنا پر مختلف حلقے ہمیشہ تنقید کرتے آئے۔ شائستہ تنقید اور کردار کشی میں جو فرق ہے اولا اسے سمجھنے کی ضرورت ہے ثانیا یہ کہ عوام یہ جاننا چاہتے ہیں کہ جو جماعت اپنے دور میں توہینِ آرمی کے خلاف سخت قانون سازی کرتی رہی وہ آج خود کہاں کھڑی ہے۔ حیران کن امر یہ ہے کہ خود عمران خان سال بھر سے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو تحقیر آمیز انداز میں آڑے ہاتھوں لیتے آرہے ہیں ان کے جذباتی کارکن اور ہمنوا ان کی موجودگی میں ان نعروں سے ماحول گرماتے ہیں جن نعروں کو سال بھر قبل فوج پر حملہ قرار دیتے ہوئے پی ٹی آئی کے ایک رکن قومی اسمبلی امجد نیازی کی تحریک پر قانون سازی ہوئی تھی۔
امر واقعہ یہ ہے کہ سیاسی عمل میں شرکت، جدوجہد اور اقتدار سازی سیاسی جماعتوں کا کام ہے۔ دستور نے ہر شخص، محکمے اور ادارے کا کردار واضح کردیا ہے اپنے دستوری کردار سے تجاوز کرنے والا فرد ہو، محکمہ یا ادارہ، اس پر نہ صرف تنقید درست ہوگی بلکہ ملکی قوانین کے مطابق کارروائی بھی۔ مسئلہ تب بنتا ہے جب ایک طرف فوج یا کسی دوسرے محکمے اور ادارے کے خلاف جوش و خروش کے ساتھ مہم چلائی جارہی ہو اور دوسری طرف اس فریب مسلسل کا شکار بھی رہا جائے کہ کوئی ہمارے دوہرے معیار کی اصلیت سے آگاہ نہیں۔ پچھلے برس بعض مقدمات کے فیصلوں پر فواد چودھری سمیت پی ٹی آئی کے رہنما کہا کرتے تھے کہ یہ نہیں ہوسکتا تین یا پانچ افراد بیٹھ کر قوم کی قسمت کے فیصلے کریں۔ یہ تین پانچ افراد ذرا عوام میں نکل کر تو دیکھیں۔ اب موجود حکومتی اتحاد کو اسی عدلیہ سے شکایات ہیں ۔ عدالتی فیصلوں پر فہمیدہ انداز میں تنقید جرم تھی نہ ہے یہی معاملہ دیگر کرداروں کے حوالے سے ہے۔ مناسب یہ ہوگا کہ سیاستدان اپنی لڑائی خود لڑیں اپنی انا کی جنگ میں ملکی محکموں اور اداروں سے منسلک شخصیات کو گھسیٹنے سے گریز کریں البتہ کسی بھی شخصیت کے بارے میں اختیارات سے تجاوز کے ثبوت موجود ہوں تو انہیں توہین کے بغیر سامنے لایا جانا چاہیے۔ اسی طرح ملٹری اسٹیبلشمنٹ، دیگر محکموں اور اداروں کے ذمہ داران سے بھی یہی مودبانہ درخواست ہے کہ وہ اپنے فرائض پر توجہ دیں کسی بھی طرح ایسا تاثر نہ اجاگر ہونے دیں کہ ان کی کوئی پسندوناپسند ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان کو بھی چاہیے کہ وہ یہ کہہ کر بری الذمہ نہ ہوں کہ سوشل میڈیا پر کسی کا کنٹرول نہیں انہیں اپنے کارکنوں اور حامیوں سے دوٹوک انداز میں یہ کہنا چاہیے کہ وہ جلسوں جلوسوں، مظاہروں اور سوشل میڈیا پر مسلح افواج کے خلاف مہم کو کسی تاخیر کے بغیر بند کردیں۔ ہماری دانست میں اس سے بھی زیادہ ضروری یہ ہے کہ سیاستدان ایک میز پر بیٹھیں اور رولز آف گیم طے کریں۔ اسٹیبلشمنٹ یا کسی اور کے سہارے اقتدار کے حصول کے لئے مہم جوئی یا سہولت کاری کے حصول کی بجائے عوام پر اعتماد کریں اور اپنے سیاسی پروگرام کی بنیاد پر رائے عامہ ہموار کریں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ سیاستدان خود غیرمتعلقہ لوگوں کواپنے معاملات میں مداخلت کی دعوت دیتے ہیں اور پھر ٹسوے بہانے لگ جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر پی ٹی آئی کے دو بڑے رہنما شاہ محمود قریشی اور فواد چودھری گاہے گاہے یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں ہم آرمی چیف سے صرف یہ چاہتے ہیں کہ وہ ملک میں منصفانہ انتخابات کے لئے کردار ادا کریں۔ ان دونوں اور دیگر ان تمام سیاستدانوں سے جو اس طرح کی سوچ رکھتے اور اس کا اظہار کرتے ہیں یہ پوچھا جانا چاہیے کہ آئین پاکستان کی کس شق میں یہ تحریر ہے کہ آرمی چیف نے منصفانہ انتخابات کروانے ہیں؟ اس امر پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے کہ ہمارے سیاستدان ماضی سے سبق سیکھنے کے لئے آمادہ نہیں حالانکہ ماضی کو سامنے رکھ کر مستقبل کیلئے حکمت عملی وضع کی جائے تو بہت ساری خرابیوں سے بچا جاسکتا ہے۔ سیاستدانوں کو بہرطور یہ سوچنا ہوگا کہ آخر کیوں وہ عوام کے فیصلے پر اعتماد کرنے کی بجائے اپنی اپنی ضرورت کے لئے انتخابی مینجمنٹ کی خیرات مانگتے ہیں۔ سابق وزیراعظم آجکل تواتر کے ساتھ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے خلاف اپنی حکومت گرانے پر کورٹ مارشل کامطالبہ کرتے ہیں کیا وہ تھوڑی سی اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرکے یہ مطالبہ کرسکتے ہیں کہ 2018 کی انتخابی منیجمنٹ کے جملہ کرداروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے؟ فوج کے دستوری کردار پر یقینا دو آرا نہیں اس کردار سے تجاوز پر تنقید کا بھی برا نہیں منایا جاناچاہئے البتہ تنقید کرنے والوں کو یہ ضرور مدنظر کھنا ہوگاکہ وہ تنقید کا جمہوری حق استعمال کررہے ہیں یا پھر ذاتی رنج کے اظہار میں کشتوں کے پشتے لگائے چلے جارہے ہیں۔

مزید پڑھیں:  کور کمانڈرز کانفرنس کے اہم فیصلے