جس رہ سے چلے تیرے درو بام ہی آئے

کچھ لوگ ہوتے ہیں جو خواب دیکھنے سے باز نہیں آتے اچھے دنوں کے خواب ‘کامیابیوں اور کامرانیوںکے خواب اور خواب دیکھتے سمے ان کی زبان پر ہمشہ ایک ہی کلمہ رہتا ہے یعنی ”توکلت علی اللہ” اللہ رب العزت کے بھروسے پر ضبح کو شام اور شام کو صبح کرنے والوں کے سامنے ہمشہ روشن مستقبل ہی رہتا ہے۔ ان کا مطمع نظر بقول راحت اندوری یہی ہوتا ہے کہ
ہم سے پہلے بھی مسافر کئی گزرے ہوںگے
کم سے کم راہ کے پتھر تو ہٹاتے جاتے
یہ لوگ ماضی میں رہتے ہوئے مستقبل کی فکر میں رہتے ہیں ‘بات ماضی کی چل رہی ہے تو سابق سینئر صوبائی وزیر اور جماعت اسلامی کے ایک اہم رہنماء عنایت اللہ خا ن نے صوبہ خیبر پختونخوا کی ترقی کے حوالے سے ویژن جسے سادہ الفاظ میں صوبہ خیبر پختونخوا کی ترقی کا پانچ سالہ منصوبہ سال 2013-18 کہنا زیادہ مناسب ہوگا پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے مختلف شعبوں میں ایک جامع پروگرام پیش کیا۔ اس ضمن میں جماعت اسلامی کے خیبر پختونخوا شاخ نے صوبائی امیر پروفیسر محمد ابراہیم خان کی قیادت میں نہات عرق ریزی سے اس ”پانچ سالہ منصوبے” کی تیاری کو ممکن بنایا اور گزشتہ روز اس حوالے سے امیر جماعت اسلامی سراج الحق کی صدارت میں ایک تقریب میں نہ صرف اس پروگرام کے خدو خال میڈیا ‘کالم نگاروں ‘دانشوروں اور دیگر طبقہ ہائے فکرکے سامنے رکھے بلکہ اس موقع پر عنایت اللہ خان نے سوال و جواب کا ایک سیشن بھی چلایا۔ اس موقع پر کالم نگار سلیم صافی نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے امیر جماعت زسلامی سراج الحق نے موجودہ ملکی صورتحال پر نہایت دردمندانہ اور دلسوزی کے انداز میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر آئین و قانون کی حکمرانی قائم اور کرپشن و مس مینجمنٹ کا خاتمہ ہوجائے تو ملک اپنے پائوں پر کھڑا ہوسکتا ہے۔ ملک میں وسائل اور دولت کی کمی نہیں ‘تاہم بحرانکی اصل نااہل قیادت ہے جو گزشتہ 75 برسوں سے فوجی ڈکٹیٹروں اور نام نہاد جمہوری لیڈروں کی شکل میں قوم پر مسلط ہے ‘تبدیلی کا آغاز ذات سے ہوتا ہے مگر حکمران طبقہ اپنی ذات کے حوالے سے کسی قسم کی قرانی دینے کو تیار نہیں ہے۔ سراج الحق نے برطانوی وزیراعظم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ برطانوی وزیراعظم چار کمروں کے گھر میں رہتاہے جبکہ ہمارے حکمران اشرافیہ سٹیٹس کو کی محافظ اور ایسٹ انڈیا کمپنی کا تسلسل ‘ایکڑوں پر پھیلے ہوئے گھروں میں رہتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ ان کا پشتبان ہے ‘سراج الحق نے بطور سابق صوبائی سینئر وزیر اور وزیر خزانہ اپنے تجربات بیان کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضوں کی ضرورت ہے نہ حاجت بشرط یہ کہ وسائل کی منصفانہ تقسیم ممکن ہوسکے۔ گویا آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک ہمارے لئے ہماری غلط پالیسیوں کی وجہ سے سب سے بڑا مسئلہ بنے ہوئے ہیں یعنی بقول شاعر
کیا راہ بدلنے کا گلہ ہم سفروں سے
جس رہ سے چلے تیرے درو بام ہی آئے
بلکہ دیکھا جائے تو ماضی کی حکومتوں کی عاقبت نااندیشانہ پالیسیوں کی بدولت یہ عالمی ادارے فیصل آباد کا گھنٹہ گھر بن چکے ہیں اور اب جہاں سے بھی سفرکا آغاز کریں جس راہ سے بھی چلیں چلتے چلتے ”گھنٹہ گھر” ہی پر ہمارا سفر اختتام کو پہنچتا ہے۔ سراج الحق نے ماضی کے تجربات دوہراتے ہوئے بطور سابق وزیرخزانہ صوبے میں مختلف ترقیاتی پروگراموں کی ابتداء کے ہنگام (بیورو کریسی) کی جانب سے ڈراوا دینے کی جانب اشارہ کیا اور کہاکہ ہم نے اپنے اقتدار کے دور میں جب بھی کوئی انقلابی قدم اٹھانے کی کوشش کی تو ہمیں خوف میں مبتلا کرتے ہوئے ”بھاری پتھر” کو اٹھانے کے خطرناک نتائج سے آگاہ کیا گیا مگر ہم ”توکلت علی اللہ” کہہ کر آگے بڑھے اور کامیابی نے ہمارے قدم چومے۔ جماعت اسلامی کے ”پنج سالہ ترقیاتی پروگرام” کے حوالے سے بھی انہوں نے خوش گمانی کا اظہار کرتے ہوئے صوبائی ٹیم کی کاوشوں کو سراہا اور خیبر پختونخوا کو ماڈل صوبہ بنانے کیلئے جدوجہد میں مزید تیزی لانے کی ہدایات جاری کیں۔ جہاں تک صوبے کی ترقی کیلئے وژن پانچ سالہ منصوبے کا تعلق ہے تو اس حوالے سے عنایت اللہ خان نے اپنی پریزنٹیشن میں ایوبی دور کے پنج سالہ منصوبوں کا سرسری سا ذکر کیا ‘تاہم ان کی اس بات نے ہمیں اسی دور میں پہنچا دیا البتہ یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ بات کہاں بگڑی یعنی بقول ایک فارسی شاعر
خشت اول چوں نہد معمار کج
تا ثریا می رود دیوار کج
ہوا یہ تھا کہ ایوبی آمریت کے دور میں ملک کی ترقی کے حوالے سے کئی ایک پنج سالہ منصوبے شروع کئے گئے تھے اور ان منصوبوں پر عملدرآمد سے پاکستان تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا چلا گیا تھا ویسے بھی اس وقت امریکی قیادت میں مغربی دنیا کیلئے پاکستان near and dear یعنی منظور نظر تھا اور یہ ممالک ہر طرح سے پاکستان کی ترقی میں دامے ‘درمے ‘سخنے اپنا حصہ ڈالتے تھے اور ہر سال اگلا پنج سالہ منصوبے کے خدوخال سامنے آجاتے ‘پاکستان میں آمریت اور مارشل لاء کی صورتحال اپنی جگہ تاہم امریکی پالیسیوں پر آمنا و صدقنا کہنے کی وجہ سے فنڈز اور امداد کی بہتات تھی ملک میں صنعتی ترقی عروج پر تھی ‘خوشحالی کا دور دورہ تھا اس صورتحال کو دیکھ کر کوریا کے ماہرین نے آکر ان پنج سالہ منصوبوں کا تفصیلی جائزہ لیا اور واپس جاکر اپنے ملک میں ایسے ہی منصوبوں کا آغاز کیا جس کے بعد کوریا بھی ترقی کی شاہراہ پر تیزی سے گامزن ہوا جبکہ پاکستان نے خدا جانے کس مقام پر ٹھوکر کھائی اور ترقی کا جو خواب پاکستانی قوم آنکھوں میں بسائے خوشحالی کی منزل سے ہمکنار ہونا چاہتی تھی وہ خواب چکنا چور ہوتے چلے گئے ‘پنج سالہ منصوبے بند ہوتے چلے گئے اور قوم اپنی ”بداعمالیوں” کی بدولت ایک ایسے صحرا میں سرابوں کے پیچھے بھٹکتی چلی گئی جہاں پہنچ کر اسے احساس ہوجاتا ہے کہ جسے منزل سمجھ بیٹھی ہے وہ منزل تو کیا نشان منزل بھی نہیں ہے ‘طالع آزما قوتوں کے زیر سایہ خود غرض سیاسی قوتوں نے گم کردہ راہ بن کر ترقی کی راہیں کھوٹی کیں اور اب ہم طوفانوں کے تھپیڑوں کا مقابلہ کرتے ہوئے تباہی اور بربادی کے گڑھوں میں گرکر اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں ایسے میں کسی بھی سیاسی جماعت کا ایک بار پھر پنج سالہ ترقی پروگرام کے حوالے سے منصوبہ ساری اندھیرے میں چراغ جلانے کے مترادف ہے۔ اس ضمن میں حاضرین کی جانب سے کئی چھبتے ہوئے سوال بھی اٹھائے گئے اور عنایت اللہ خان کی جانب سے نہایت خوبصورتی سے ان استفسارات کا تسلی بخش جواب یقینا حوصلہ افزاء تھا۔ تاہم ضروری ہے کہ صوبے کی سیاسی قیادت خواہ کسی بھی جماعت سے ان کا تعلق ہو اس پروگرام کا تجزیہ کرکے متفقہ طور پر آگے بڑھ کر اس میں حصہ ڈالیں تو یقینا صوبے کو ترقی کی راہ پر ڈالنے میں کوئی امر مانع نہیں ہوسکتا۔
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرام نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

مزید پڑھیں:  عسکریت پسندوں سے مذاکرات؟