نگران وزیراعلیٰ کا خط

خیبرپختونخوا کے نگران وزیر اعلیٰ محمد اعظم خان نے مراسلے میں کہا ہے کہ وفاق نے ضم اضلاع کے ترقیاتی اور غیر ترقیاتی بجٹ کیلئے فنڈز فراہم کرنے پر اتفاق کیا تھا اور اس مد میں وفاق کی طرف سے صوبے کو مالی سال 2019 سے اب تک 144 ارب روپے واجب الادا ہیں ۔ اس کے علاوہ ضم اضلاع کے تیز رفتار ترقیاتی پروگرام (اے آئی پی)کی مد میں اب تک 469 ارب روپے وفاق کے ذمے بقایا ہیں جبکہ فیڈرل ٹیکس اسائنمنٹ کی مد میں وفاق کے ذمے 25 ارب روپے واجب الادا ہیں۔ اسی طرح پن بجلی کے خالص منافع کی مد میں تقریباً 50 ارب روپے جبکہ تیل اور گیس کی رائلٹی کی مد میں ڈھائی ارب روپے وفاقی حکومت کے ذمے واجب الادا ہیں۔ مراسلے میں مزید کہاگیا ہے کہ صوبے میں وفاقی ترقیاتی پروگرام (پی ایس ڈی پی)کے تحت چار زیر تعمیر ڈیموں کی بروقت تعمیر کیلئے 935 ملین روپے درکار ہیں ۔ وزیراعلیٰ نے وزیراعظم سے سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی امداد اور بحالی کیلئے دس ارب روپے فراہم کرنے جبکہ صوبے میں بجلی کی پیداوار کیلئے مختص کردہ 100ایم ایم سی ایف گیس بحال کرنے کی بھی درخواست کی ہے۔ وزیراعلیٰ نے وزیراعظم سے قاضی کمیٹی طریقہ کار کے مطابق صوبے کو بجلی کے خالص منافع کی ادائیگی کا معاملہ مشترکہ مفادات کونسل کے آئندہ اجلاس میں پیش کرنے کی بھی درخواست کی ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف صوبے کی مالی مشکلات کو کم کرنے کے لئے خصوصی تعاون کریں گے۔صوبے کے مالیاتی حقوق کیلئے نگران وزیراعلیٰ کی کاوش احسن ہے سیاسی جماعتیں جہاں حکومت پر دبائو ڈالنے کیلئے دیگر مطالبات کرتی ہیں وہاں وزیراعلیٰ کی جانب سے تفصیل کے ساتھ صوبے کے حقوق مسائل اور وسائل کے حوالے سے موقف کی پوری طرح تائید کے ساتھ اس کے حصول کی سعی میں اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ گورنر خیبر پختونخوا جس کی ایک شکایت پر چیف سیکرٹری تبدیل ہوتے ہیں اگر وہ اپنے اثر و رسوخ کو صوبائی حقوق کے حصول کیلئے بھی بروئے کار لاکر نگران وزیراعلیٰ کے خط کی تائید کے ساتھ اس کا مطالبہ کریں تو اچھے نتائج کی توقع ہے۔ اسے بدقسمتی ہی قرار دیا جائے گاکہ سیاسی جماعتیں سیاسی مقاصد کیلئے تو ایڑی چوٹی کا زور لگاتی ہیں مگر صوبے سے سوتیلی ماں کا سلوک ہونے پر ان کو پرواہ نہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف کو خیبر پختونخوا کے محرومیوں کی آواز سن لینی چاہئے اور صوبے کے حقوق و وسائل کی فراہمی میں مزید تاخیر کا مظاہرہ نہ کیا جائے۔

مزید پڑھیں:  جامعات کے ایکٹ میں ترامیم