دہشت گردی کے واقعات

ڈیرہ اسماعیل خان اور جنوزبی وزیرستان میں دہشت گردی کے دو الگ الگ واقعات میں حساس ادارے کے اعلیٰ افسر سمیت پانچ جوانوں کی شہادت اور جوابی حملے میں تین دہشت گردوں کی ہلاکت کے واقعات سے ماضی میں دہشت گردی کا شکار پٹی میں دہشت گردی کی لہر اور ان کی موجودگی یا پھر واپسی ظاہر ہوتی ہے ممکن ہے ان واقعات کے کردار ان بارہ سو افراد کے ساتھ واپس آنے والوں کے ساتھی ہوں جن کو بلا سوچے سمجھے اور بغیر کسی ضمانت کے واپس آنے کا موقع دیاگیا۔بہرحال اس سے قطع نظر محولہ خطے میں خاص طور پر دہشت گردوں کی موجودگی اور اسی طرح کے واقعات نئی بات نہیں سخت تطہیری مہم کے بعد علاقے کو پوری طرح صاف کرنے کے بعد صورتحال بہتر ہوئی تھی اب ایک مرتبہ پھر ایک ہی دن میں دو واقعات تشویش کی بات ہے۔ ایک حساس ادارے کے اعلیٰ افسر کی آمدورفت سے ان کی آگاہی اور گھات لگاکر حملہ ناقابل یقین لگتا ہے ممکن ہے یہ محض اتفاق ہو یا پھر سرحد پار سے ان کو اشارے ملے ہوں جس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ افغانستان کی سرزمین پر اب بھی دہشت گرد پوری طرح موجود اور فعال ہیں جن کے خلاف کارروائی میں وہ سنجیدگی نظر نہیں آتی جس کی صورتحال متفاضی ہے۔نائن الیون کے بعد سے ملک کو دہشت گردی کی جس غفریت کا سامناہے اس کا جس پامردی سے مقابلہ کیا گیا وہ کوئی پوشیدہ امر نہیں مشکل امر یہ ہے کہ غیر مرئی دشمن اس کے باوجود کسی نہ کسی طرح اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے اور آئے روز اس طرح کے واقعات پیش آتے ہیں اس بارے دورائے نہیں کہ پاک فوج اور ساتھ ساتھ پولیس دونوں اس صورتحال سے نمٹنے میں ہر بار مستعد پائے گئے چھپ کر وار اور اچانک کسی جگہ دہشت گردی کرنے کے واقعات کا تقاضا ہے کہ ایک مرتبہ پھر تطہیری مہم اس انداز سے شروع کی جائے کہ دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے اور کوئی بھی کمیں گاہ باقی نہ رہے نیز جن لوگوں کی وساطت اور مدد سے یہ عناصر حملہ آور ہوتے ہیں ان مددگاروں کی بھی چھان بین ہو اس ضمن میں عوام کا تعاون اور کردار خاص طور پر اس لئے اہم ہے کہ مشکوک عناصر کی نشاندہی کی ذمہ داری پور کی جائے۔ جہاں تک پاک فوج ‘حساس اداروں اور دیگر حفاظتی ذمہ داریاں نبھانے والے محکموں کا تعلق ہے بلاشبہ اس جنگ کولڑنے کے سوائی کوئی آپشن نہیں ہے بلکہ جنگ کوجیتنے کے علاوہ بھی کوئی اور چارہ کار موجود نہیں یقینا دیر یا بدیر ان دہشت گردوں کا صفایا ہونا ہے اور جیت پاکستانی عوام ہی کی ہونی ہے۔صورتحال اس امر کی متقاضی ہے کہ پاک فوج کے ساتھ ساتھ ضم اضلاع میں بالخصوص ان عناصر سے نمٹنے کی ذمہ داری انجام دینے والے محکموں اور اہلکاروں کی استعداد و طاقت میں اضافہ اور ان کومزید فعال بنانے کی ضرورت ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی استعداد بڑھانے کے حوالے سے حکومتی سطح پرجن اقدامات اور سہولیات کی فراہمی کی ضرورت ہے تاہم تما م تر دعوئوں کے باوجود اس میں کمی اور تشنگی پوری طرح محسوس ہوتی ہے۔ دہشت گردوں کے پاس جدید ترین اسلحہ اور ٹیکنالوجی کی موجودگی سب سے بڑا چیلنج ہے اس امر کی بھی چھان بین کی ضرورت ہے کہ جواسلحہ اور جدید ٹیکنالوجی امریکی فوج کے انخلاء کے وقت افغان طالبان کے ہاتھ لگا تھا ٹی ٹی پی کے پاس کیسے آگئی اس صورتحال نے ان کی فعالیت میں اضافہ اور دفاعی اداروں کی مشکلات بڑھا دی ہیں ان عناصر کو مسکت جواب دینے کیلئے پولیس کو جو تھوڑی بہت جدید اسلحہ اور گاڑیاں فراہم کی جاچکی ہیں وہ بھی غالباً سارے اضلاع میں نہیں پہنچیں نیز ان کی تعداد بھی کاقی نہیں امید واثق ہے کہ اس پر جلدسے جلد توجہ دی جائے گی اور آنے والے دنوں میں دہشت گردی کو شکست دینے والے عوامل میں اضافہ کے اثرات سامنے آنا شروع بھی ہوجائیں گے۔ نائن الیون کے بعد کے واقعات میں قومی سطح پر اتحاد و اتفاق کی جو مثالی صورتحال تھی بدقسمتی سے ان دنوں وہ نظر نہیں آتی سیاسی معاملات کے باعث قوم منقسم اور باہم دست و گربیاں ہے اس سے بھی بڑی بدقسمتی ان اداروں پر انگشت نمائی ہے جو ڈھال بن کر ہمیں تحفظ دے رہے ہیں۔دہشت گردی کا مسئلہ اور اس کا مستقل و دیرپا حل ہشت پہلو ہے اور اس کیلئے مزید تیاری اور جدوجہد کی ضرورت ہے اس کی کئی جہتیں ہیں جو اس امرکا متقاضی ہے کہ ہم سب مل کر اپنا کردار ادا کریں اور اپنے کردار کو پہچانیں اور اپنی ذمہ داری سمجھ کر اسے قومی جذبے سے ادا کریں ہم سب کو اپنے اپنے محاذ پر کامیابی سے لڑنا اور آگے بڑھنا ہوگا۔ ہمیں دہشت گردی کو نہ صرف جنگی محاذ پر ہی شکست دینا ہوگی بلکہ بحیثیت ریاست اورمعاشرہ تعلیم ‘صحت ‘امن عامہ اور معاشی خوشحالی کے معیار کے حصول کیلئے بھی پوری طرح کوشاں رہنا ہوگا اور ان عوامل کو یقینی بنانا ہوگا جس کے نتیجے میں بہتر اور پرامن معاشرہ قائم ہو ہم نے فرد معاشرے اور زندگی کے نئے روابط کو وجود میں لانا اور عملی طور پر ممکن بنانا ہوگا۔نئے خواب دیکھ کر ان کی تعبیر کے حصول کی پوری جدوجہد کرنی ہوگیاور نئی دنیا تراشنا ہوگا۔ پاکستان ہم سب کے بہترتخیل اور جہد مسلسل کا منتظر ہے اور قومی فرض پکار پکار کراپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے ادائیگی کا متقاضی ہے۔

مزید پڑھیں:  نشستن و گفتن و برخاستن