دہشت گردی کی حالیہ لہر

جنوبی وزیرستان کے علاقہ انگور اڈا میں دہشت گردوں کے حملے میں آئی ایس آئی کے بریگیڈیئر مصطفیٰ کمال برکی شہید ہوگئے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق بریگیڈیئر مصطفیٰ کمال دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کرنے والی ٹیم کی قیادت کررہے تھے جبکہ دوسری طرف ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کی حدود میں واقع کھوئی چیک پوسٹ پر دہشت گردوں کے حملے میں سکیورٹی فورسز کے تین اہلکار شہید ہوگئے، ڈی آئی خان شہر میں دہشت گردوں کی فائرنگ سے معروف سماجی کارکن اسلم خان بلوچ شہید ہوگئے، بعض ذرائع انگور اڈا واقعہ کے حوالے سے بتا رہے ہیں کہ پہلے سے گھات لگا کر بیٹھے دہشت گردوں نے بریگیڈیئر مصطفیٰ کمال برکی کے قافلے پر حملہ کر دیا، اس حملے میں ان کا ڈرائیور بھی شہید ہوا جبکہ دو اہلکار زخمی ہوئے، شہید ہونے والے بریگیڈیئر اور ان کے ساتھیوں نے حملہ آوروں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، بریگیڈیئر برکی کی شہادت پر اعلیٰ سول و عسکری حکام کے تعزیتی بیانات میں بھی ملک اور قوم کیلئے ان کی خدمات کو سراہا گیا ہے، شہید ہونے والے بریگیڈیئر انسداد دہشت گردی کے ماہرین میں خصوصی اہمیت رکھتے تھے، انگور اڈا اور کھوئی چیک پوسٹ کے واقعات کی بظاہر ابھی تک کسی تنظیم نے ذمہ داری قبول نہیں کی لیکن دونوں علاقوں میں کالعدم تحریک طالبان پچھلے سال بھر سے جس طرح منظم کارروائیوں میں مصروف ہے اس کے پیش نظر اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں، افغانستان سے امریکہ اور نیٹو کے انخلاء کے بعد اقتدار افغان طالبان کو ملنے کے نتیجے میں جنم لینے والی دہشت گردی کی نئی لہر کے دوران صرف خیبرپختونخوا میں پولیس اور سکیورٹی فورسز کے لگ بھگ تین سو جوان اور متعدد افسر شہید ہوچکے ہیں، امریکہ نیٹو انخلاء کے بعد افغانستان میں جدید اسلحہ کا حصول عام ہے، اسی طرح افغان حکومت کی پاکستانی حدود میں سرگرم عمل ٹی ٹی پی کی ہمنوائی بھی کسی سے مخفی نہیں، پچھلے ڈیڑھ برس کے دوران ہوئی دہشت گردی اور بارڈر مینجمنٹ کی خلاف ورزیوں پر مبنی کارروائیوں میں سے بعض میں افغان طالبان کے اہم لوگ نہ صرف ان کارروائی کے ہمنوا رہے بلکہ بارڈر مینجمنٹ کی خلاف ورزی کے واقعات میں ان کی موقع پر موجودگی کے ٹھوس ثبوت بھی سامنے آئے جبکہ بعض افغان رہنمائوں کے یہ بیانات بھی ریکارڈ پر ہیں کہ ٹی ٹی پی ویسے ہی جہاد میں مصروف ہے جس طرح کا جہاد افغان طالبان نے 20 سال تک امریکہ کے خلاف کیا، اس فہمی ہم آہنگی اور ہمنوائی پر مبنی بیانات سے جو باتیں سمجھنے اور حکمت عملی اپنانے کی ضرورت تھی اسے کیوں نظرانداز کیا گیا یہ وہ سوال ہے جو دہشت گردی کی ہر واردات کے بعد ہر خاص و عام پوچھتا دکھائی دیتا ہے، کس قدر ستم ظریفی ہے کہ وزیراعظم نے کچھ عرصہ قبل پولیس لائنز پشاور کی مسجد میں ہونے والے خودکش حملے کے بعد دہشت گردی کے خلاف یکساں موقف اپنانے کے لئے جس آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد کا اعلان کیا تھا وہ آج تک منعقد نہیں ہو پائی، ابتداً سابق حکمران جماعت نے مشاورت کے لئے وقت مانگا اگلے مرحلہ پر سابق وزیراعظم عمران خان جوکہ تحریک انصاف کے سربراہ بھی ہیں نے یہ کہہ کر وزیراعظم کی آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت سے انکار کردیا کہ ”ہماری حکومت افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں کو قومی دھارے میں لانے کے لئے ان کی آبادکاری کا پروگرام بنا رہی تھی کہ ایک سازش کے تحت میری حکومت ختم کردی گئی”۔ اپنے اس موقف میں اگر وہ اس امر کی بھی وضاحت کردیتے کہ افغان طالبان کی خواہش پر انہوں نے پارلیمنٹ سے بالاتر ہو کر کابل مذاکرات کا جو ڈول ڈالا تھا اس کا ٹی ٹی پی کو کتنا فائدہ ہوا اور پاکستان کو کتنا تو ان کے موقف کا وزن بڑھ جاتا، ایسا کیا جانا اس لئے بھی ضروری تھا کہ ان کی جماعت سے تعلق رکھنے والے صدر مملکت عارف علوی نے پی ٹی آئی کی اس وقت کی صوبائی حکومت کی درخواست پر دو سو کے قریب ان افراد کی رہائی کے لئے صدارتی فرمان جاری کیا تھا جن میں سے بعض سزا یافتہ تھے اور باقی ماندہ افراد پر سنگین واقعات میں ملوث ہونے کے مقدمات زیرسماعت تھے، بہرطور یہ امر اپنی جگہ درست ہے کہ اگر سابق حکمران جماعت اپنے دور میں ہوئے کابل مذاکرات میں ٹی ٹی پی کے سامنے کمزوری کا مظاہرہ نہ کرتی تو جنگجوئوں کے جتھوں کو پاکستانی سرزمین پر ازسرنو منظم ہونے کا سنہری موقع نہ ملتا، باعث افسوس یہ ہے کہ ان کے دور میں بارڈر مینجمنٹ (سرحد سے باڑ اتارنے وغیرہ) کی جس طور کھلی خلاف ورزی ہوئی اس پر بھی سخت موقف اپنانے کی بجائے افغان حکومت کی ناز برداری کا سلسلہ جاری رہا، نتیجہ عوام اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بھگت رہے ہیں، گزشتہ روز انگور اڈا اور کھوئی چیک پوسٹ پر پیش آنے والے واقعات کو گو دہشت گردی کی حالیہ لہر سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا لیکن انگور اڈا پر دہشت گردوں کے حملے میں بریگیڈیئر مصطفیٰ کمال برکی کی شہادت معمولی واقعہ ہرگز نہیں، شہید بریگیڈیئر نے پچھلے ایک عشرے کے دوران انسداد دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں اپنی صلاحیتوں سے جہاں اپنا لوہا منوایا وہیں ٹھوس معلومات کے حصول اور کامیاب آپریشنوں کے ذریعے دہشت گردوں کو ناقابل تلافی نقصان بھی پہنچایا۔ یہاں اس امر کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی حالیہ دنوں میں مارے جانے والے اپنے بعض اہم کمانڈروں، ان میں ٹی ٹی پی کا ایک ترجمان بھی شامل ہے، کی ہلاکت کا ذمہ دار انہی کو ٹھہراتی رہی یہ وہ نکتہ ہے جس سے یہ سمجھنے میں مشکل نہیں ہوگی کہ انگور اڈا سانحہ کا ذمہ دار کون ہے اور اس کا مستقبل میں فائدہ کون اٹھاسکتا ہے۔ دہشت گردی کی حالیہ لہر جس قومی یکجہتی اور بھرپور و واضح حکمت عملی کی متقاضی ہے وہ دور دور تک دکھائی نہیں دے رہی۔ بدقسمتی سے مروجہ سیاست کے حریف حساس معاملات پر بھی اپنی اپنی بولیاں بولنے میں مصروف ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس معاملہ پر ہم آہنگی کا مظاہرہ کرکے دہشت گردوں کو یہ پیغام دیا جاتا کہ ان کے خلاف نہ صرف پورا پاکستان متحد ہے بلکہ منہ توڑ جواب دینے کے لئے بھی تیار ہے، یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ دہشت گردی کی جاری کارروائیوں کے حوالے سے ابتداء ہی سے جو تحفظات ظاہر کئے جا رہے ہیں، وہ ہر گزرنے والے دن اور کسی نئے واقعہ کے بعد درست ثابت ہو رہے ہیں، بہر طور ملک کی سیاسی قیادت کو اپنی انا کی جنگ سے کچھ وقت نکال کر اس اہم اور حساس معاملے پر مل بیٹھ کر مشترکہ حکمت عملی اپنانا ہوگی، وزیراعظم کسی تاخیر کے بغیر ملتوی کی جانے والی آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد کی تاریخ کا اعلان کریں نیز اس معاملے پر پارلیمان میں بھی بات کی جائے۔ دہشت گردوں کی سہولت کاری میں مصروف افغان حکام کا معاملہ بھی دوٹوک انداز میں افغان حکومت کے سامنے اٹھایا جائے، یہی نہیں بلکہ صاف الفاظ میں واضح کیا جائے کہ اگر افغان عبوری حکومت نے دوحہ معاہدہ کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ جاری رکھا تو پاکستان اس معاملے کو عالمی برادری اور اقوام متحدہ میں لے جانے پر مجبور ہوگا، دہشت گردوں کی سرکوبی کے لئے ٹھوس حکمت عملی اپنانے کے ساتھ ساتھ ان کے ہر قسم کے مددگاروں کے خلاف واضح موقف اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستانی عوام کو اس ہلاکت خیزی سے محفوظ رکھا جاسکے جو دہشت گردوں کا مقصد ہے۔

مزید پڑھیں:  اپنے جوتوں سے رہیں سارے نمازی ہو شیار