ہم ماہ صیام کیسے گزاریں

انجنئیرنگ یونیورسٹی لاہور میں مولانا ابوبکر غزنوی (مرحوم) ماہِ رمضان کے آغاز پر طلباء کو یہ درس دیا کرتے کہ اس مہینہ میں وہ اپنے معمولات اور عبادات کی ادائیگی کیسے کریں تاکہ اللہ کی رحمتوں سے سرفراز ہو سکیں، ان کی اس روایت کو شعبہ اسلامیہ کے دیگر اساتذہ کرام نے بھی جاری رکھا اور وہ ہمیں اس مقدس مہینے کی برکات سمیٹنے کے بارے خصوصی لیکچر دیا کرتے، اسی طرح بہت سے اہل قلم اور خاص کر مذہبی دانشور اس ماہ کی مناسبت سے اپنی کتابیں اور رسائل ہمیں ارسال کر دیتے ہیں، ایک عرصہ سے پروفیسر رفیع الدین ہاشمی رمضان المبارک کی آمد پر مجھے جید علماء کرام کی مطبوعہ تحریریں ارسال کر رہے ہیں جن میں تحریک اسلامی کے رہنماء اور معروف دانشور خرم مراد کا کتابچہ ضرور شامل ہوتا ہے کہ اس عظمت اور برکت والے مہینے کو کیسے گزارہ جائے اور اس سے استفادہ کے لئے ہمارا عمل کیسا ہو۔ اللہ ہمارے اساتذہ کرام اور اہل علم بزرگوں کو آسانیاں نصیب کرے جو اسوہ ٔ نبویۖ کے اتباع میں ہم پہ کرم نوازی کرتے رہے، ہمارے نبی کریمۖ ماہِ رمضان سے قبل اپنے ساتھیوں کو اس مہینہ کی فضیلتوں اور خزانوں سے فائدہ اُٹھانے کو تیار کیا کرتے تھے، اسلامی قمری سال کے اس نویں مہینہ کو رمضان کہتے ہیں جس میں ہر عاقل اور بالغ مرد و زن پر روزے فرض کئے گئے ہیں، روزہ کا بنیادی مقصد اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے، اسی سے انسان کے اندر انفرادی اور اجتماعی تقویٰ پیدا ہوتا ہے، احساسِ بندگی، ضبط نفس، احساسِ ہمدردی اور صبر و تحمل جیسے اوصافِ حمیدہ پیدا ہوتے ہیں، رمضان علم و عمل کی وہ راہ ہے جس میں رحمن و رحیم کی بے پایاں رحمت نے ہم جیسے انسانوں کی رہنمائی کا سامان فرمایا اور اس کی حکمت نے ہماری سوچ اور عمل کی راہیں روشن کر دیں، نزولِ قران کے باعث یہ مہینہ عظیم اور جلیل القدر ہے اور یہ بے مثال اور منفرد واقعہ اس بات کا متقاضی ہوا کہ اس کے دنوں کو روزوں کے لئے اور راتوں کو قیام و تلاوت کے لئے مخصوص کر دیا جائے۔ اللہ کا فرمان ہے ” رمضان ہی وہ مہینہ ہے جس میں قران نازل کیا گیا جو سارے انسانوں کے لئے سر تا سر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں”۔ قران سے مسلسل گہرا ربط بہت ضروری ہے کہ یہ کتاب بڑی اعلیٰ صفات کا مطالبہ کرتی ہے، اس کے لئے خصوصی قوت اور استعداد کی ضرورت ہے، اسی قوت اور فہم کا سرچشمہ تقویٰ ہے جسے اللہ نے شروع ہی میں واضح کر دیا کہ اس کتاب سے وہی صحیح راہ پر چل سکتے ہیں جو تقویٰ رکھتے ہوں، تقویٰ اس شعور و آگہی اور عزم و ارادہ کا نام ہے جس کی بدولت ہم ان چیزوں کو اختیار نہ کریں جسے غلط مانتے ہیں اور ان چیزوں کو اپنائیں جسے ہم صحیح جانتے ہیں، لہٰذا تقویٰ کے لئے ضروری ہوا کہ ہم اقدار، اخلاق اور اعمال میں صحیح اور غلط کا ایک مستقل ضابطہ و معیار تسلیم کر لیں، مجھے یاد ہے کہ ایک بار مولانا امین احسن نے پنجاب یونیورسٹی میں اپنی تقریر کے دوران طلباء کو روزے کی برکات بیان کرتے ہوئے یہ بات خاص طور پہ کہی کہ آدمی کے اندر فتنہ کے جو بڑے بڑے دروازے ہیں، روزہ ان کو بڑی حد تک بند کر دیتا ہے جبکہ روزے کی بڑی برکت یہ ہے کہ آدمی کی قوت ِ ارادی کی بہترین طریقہ پر تربیت کرتا ہے، شریعت کی حدود کی پابندی کے لئے سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ قوت ِ اردای مضبوط ہو کیونکہ اس کے بغیر یہ ناممکن ہے کہ کوئی شخص خواہشات، شہوات اور جذبات کے غیر معتدل ہیجانات کو دبا سکے، شریعت کا وہ حصہ جو انسان کو برائیوں سے روکتا ہے، صبر کا مطالبہ کرتا ہے اور صبر کی مشق روزہ سے حاصل ہوتی ہے، روزہ رکھنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اصل چیز اطاعتِ الٰہی ہے، اس فرض کو ادا کرنے کی فکر ہم اسی وقت کر سکتے ہیں جب ہم قران مجید، صومِ رمضان اور تقویٰ کے باہمی تعلق کو اچھی طرح سمجھ لیں، رمضان کا مہینہ اپنی مخصوص عبادات کو کسی نہ کسی صورت میں قران مجید پر مرکوز کر دیتا ہے، چاہئے کہ اس ماہ زیادہ وقت اللہ کی کتاب سے وابستہ رہیں تاکہ ہم یہ جان سکیں کہ اللہ نے ہمیں کیا ہدایات دیں تاکہ اس پر عمل کرنے کی آمادگی پیدا ہو، قرآن نے از خود کمزور لوگوں کو اس معاملہ میں سہولت دی ہے کہ جتنا آسانی سے پڑھ سکو، اتنا پڑھو۔ لہٰذا ضروری ہے کہ اس ماہ میں ہم روز قران کا کچھ حصہ ترجمہ کے ساتھ پڑھ کر سمجھنے کی کوشش کریں، قرآن مجید نیکی، راست بازی، دیانت داری اور نرم گفتاری کا مجموعہ ہے، جسے نہایت موثر انداز میں پیش کیا گیا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس ماہ اللہ کی کتاب سے تعلق جوڑنے پر ہم اس کی اطاعت پر عمل پیرا ہو سکتے ہیں، اپنی خرابیوں اور کوتاہیوں پر قابو پا سکتے ہیں، یوں ہم اللہ کی نافرمانیوں سے بچ سکتے ہیں، فکر ایک مسلمان کا آئینہ ہے جس میں وہ اپنی خوبیاں اور خرابیاںدیکھتا ہے، عقل کا تقاضا ہے کہ ہم کسی عبارت اور چیز کے ظاہر تک محدود نہ رہیں بلکہ اس کے باطن پر غور کریں، تدبر فی القران سے مراد یہ ہے کہ اپنے علم کی وسعت کے مطابق قرآن کے معنی کی گہرائی تک رسائی حاصل کریں، آخرت کی فکر سے غافل ہونا مومن کی پہچان نہیں، اس لئے ہمیں اس ماہ میں زیادہ سے زیادہ نیکی کی طلب ہونی چاہئے۔ یوں تو یہ کوشش زندگی بھر رہنی چاہئے لیکن دوسر ے انسانوں کے ساتھ تعلقات اور معاشرتی روابط کے معاملات میں خاص توجہ کی ضرورت ہے۔ ماہ صیام عزیزوں ، بھائیوں اور اپنے جیسے انسانوںکے ساتھ ہمدردی اور غم خواری کا مہینہ ہے۔ نماز کے بعد سب سے بڑی عبادت اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہے، رمضان میں جتنا مال بھی اللہ کی راہ میں نکال سکیں، نکالیں۔ سائل اور محروم کو اپنے مال میں سے ان کا حق دیں۔ ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ کی رحمتیں مخلوقِ خدا کی خدمت سے ہی ملتی ہیں۔ نیکی و بھلائی اور تقویٰ کا یہ دائرہ بہت وسیع ہے۔

مزید پڑھیں:  روٹی کی قیمت دا گز دا میدان