خوابیدہ سول سوسائٹی میں بیداری کے آثار

پاکستان کے سیاسی بحران کا پیمانہ اب چھلکنے لگا ہے، اب گھروں کا تقدس اور چادر و چاردیواری کی حرمت بھی پامال ہونے لگی ہے، خانہ جنگی اسی کا نام ہوتا ہے جب ہجوم گھروں میں گھس کر توڑ پھوڑ کرتے ہیں، لاہور میں یہ واقعہ رونما ہو چکا ہے اور اب علی امین گنڈا پور ایک ویڈیو میں جوابی طور پر لاہور کے ہی ایک گھر پر حملہ کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں، یہ کسی معاشرے کی تقسیم کے گہرا اور سنگین ہونے کا مقام ہے، قوموں اور معاشروں میں جب تقسیم اس حد تک ہو جائے تو پھر انتشار پھوٹ پڑنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی، پاکستان جیسی کمزور معیشت کی حامل اور منقسم سیاست کی حامل ریاست اس طرح کے انتشار کی متحمل نہیں ہو سکتی، یوں لگ رہا ہے کہ یہ سب کچھ انا کا پرچم بلند رکھنے اور انا کی تسکین کی خاطر ہو رہا ہے، اپنی انا سے اوپر اٹھ کر سوچنے والے ہی معاشروں کی تقسیم کو روک سکتے ہیں، اس وقت پاکستان میں کوئی ادارہ باقی نہیں بچا جو اس بحران کی آگ کو ٹھنڈا کرے، کوئی شخصیت دور دور تک نظر نہیں آتی جو آگے بڑھ کر مصالحت کار کا کردار ادا کرے، میڈیا مجموعی طور حکومت وقت کا ہمنوا بن چکا ہے، انہیں جو بیانیہ حکومت فراہم کرتی ہے وہ اسی کی جگالی کرتا ہے، یہ حالات غیروں کو مداخلت کا موقع فراہم کر رہے ہیں، اب پاکستان کے بحران کے حل کے لئے بیرونی ملکوں سے تجاویز آنے لگی ہیں، ان میں امریکہ کے دو اہم افراد افغان نژاد زلمے خلیل زاداور سینیٹر جیکی روزن شامل ہیں، یہ لوگ پاکستان کے حالات پر نہ صرف تشویش کا اظہار کر رہے ہیں بلکہ بحران کے حل کے لئے تجاویزبھی پیش کر رہے ہیں، حکومت ان تجاویز پر چیں بہ جبیں نظر آتی ہے، سعودی عرب کے پاکستان میں سابق سفیر عواد العسیری نے بھی پاکستان کا دورہ کرنے کے بعد ایک مضمون میں تجویز پیش کی ہے کہ پاکستان کے سیاست دان اس بحران کا حل نکالیں، زلمے خلیل زاد سے عواد العسیری تک سب لوگ بظاہر ذاتی حیثیت میں تجاویز پیش کر رہے ہیں، ایسا بھی نہیں یہ سب کچھ ذاتی حیثیت میں ہورہا ہو، ایک ایٹمی طاقت کی ساکھ اور قوت دائو پر لگی ہے اور دنیا اس سے غافل نہیں ہو سکتی، پھر جب معاملہ میڈیا کا گلہ گھونٹنے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں تک پہنچ جائے تو پھر مغربی ملکوں کے بعض اداروں کا خاموش تماشائی بن کر بیٹھنا ممکن نہیں، امریکہ میں ڈیموکریٹس کو جس گند میں اُلجھایا گیا پاکستان میں جمہوریت کی بساط لپٹ جاتی ہے تو یہ ڈیموکریٹس کے دامن پر ایک مستقل دھبہ رہے گا، ڈونلڈ لو نے امریکیوں کے دامن پر جو داغ لگایا ہے اب زلمے خلیل زاد اس کو دھونے کی کوشش کر رہے ہیں، معاملہ اب عدم اعتماد کے ذریعے حکومت کی تبدیلی سے آگے بڑھ گیا ہے اور اب اس خونیں کھیل میں ملک کا سول سٹرکچر ادھڑتا ہوا اور جمہوریت کا قالین لپٹتا ہوا نظر آتا ہے، ایسے میں گزشتہ برس اپریل میں آنے والی بظاہر جمہوری انداز کی تبدیلی مغرب کے لئے گناہِ بے لذت بن گئی ہے، گیارہ ماہ سے امریکہ نے پاکستان کی اقتصادی مدد کرنے کی بجائے صرف پاکستان کے ساتھ سکیورٹی معاہدات کرنے پر زور رکھا ہے، ان معاہدات کا پاکستان کے عام آدمی کو رتی برابر فائدہ نہ ماضی میں ہوا نہ آئندہ ہونے کا امکان ہے، اس سے صرف کچھ بالادست طبقات کے دن پھرتے ہیں، عام آدمی کا حلق خشک ہی رہتا ہے، اس خوفناک تقسیم میں پاکستان کی سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کے مقامی اداروں میں زندگی کے آثار پیدا ہونے لگے ہیں، معروف صحافی امتیاز عالم اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سربراہ حسین نقی کی قیادت میں سول سوسائٹی کے ایک گروپ نے موجودہ بحران کو راستہ دینے کے لئے آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد کا بیڑہ اُٹھا لیا، عمران خان سے پہلی ملاقات کے بعد ان دونوں راہنمائوں کا لہجہ بہت اصولی اور قطعیت پر مبنی تھا، صاف دکھائی دے رہا تھا بیرونی دنیا سے پاکستان میں انسانی حقوق کے حوالے سے تشویش کے اظہار نے مقامی سول سوسائٹی کو بھی جگا دیا ہے، یہ ایک خوش آئند بات ہے امید اور توقع یہی ہے کہ یہ کوشش کامیابی سے ہمکنار ہوگی اور انتخابات سے فرار کی بجائے اس عمل کو خوش دلی سے قبول کیاجائے گا۔ اس وقت پاکستان کا بحران حکومت کی انا کی وجہ سے جوہڑ بن گیا ہے، حکومت ایک آئینی تقاضے کو پورا کرنے سے انکاری ہے، جمہوریت میں انتخابات ہی بحرانوں کا حل ہوتا ہے، پی ڈی ایم کی ایک اکائی نے تو پہلے سال ہی دھوم دھڑکے سے اسلام آباد پر بستروں اور ڈنڈوں سمیت یلغارکی تھی اور نئے انتخابات کا مطالبہ شروع کیا تھا، پھر پس پردہ مذاکرات میں اشاروں کی زبان میں مطالبہ مانے جانے کے بعد احتجاج ختم کیا تھا، اب ایسا کیا ہوا کہ جو انتخابات حکومت کے قیام کے پہلے سال ہی اس قدر ناگزیر تھے کہ لائو لشکر لے کر اسلام آباد کا رخ کرنا پڑا تھا، اب وہی انتخابات ناگزیر ہوجانے کے باوجود قابل قبول نہیں رہے، اب انہی انتخابات سے الرجی ہونے لگی ہے، ایسے میں جب عدلیہ دو صوبوں میں انتخابات کو آئین کا تقاضا قرار دے چکی ہے مگر انتخابات کا سامنا کرنے سے بہتر یہ سمجھا جا رہا ہے کہ آئین کی حدود سے ہی باہر نکلا جائے، انتخابات ایک بلا کا نام ہے جس سے چھپنے کے لئے کبھی معاشی حالات کو تو کبھی دہشت گردی کو بہانہ بنایا جا رہا ہے، یہ بہانے کبھی کامیاب نہیں ٹھہرتے، سوات کے عوام نے اپنی قوت کا مظاہرہ کرکے جس طرح دہشت گردوں کو واپس دھکیلا ہے اس نے دہشت گردی کی آڑ میں انتخابات ملتوی کرانے کا بہانہ ختم کر دیا، معاشی حالات کی خرابی کا معاملہ یوں ہے کہ انتخابات کے التواء سے معیشت میں سدھار نہیں آئے گا بلکہ معیشت کا بگاڑ بڑھتا جائے گا، جس ملک میں سیاسی بے چینی اور عوامی اضطراب ہو وہاں ہر دروازے کے اندر سے ”جابابا معاف” کی صدا ہی سننے کو ملتی ہے، پاکستان کے ساتھ یہی ہو رہا ہے، سعودی عرب جیسے برادر اور دوست ملک نے بہت پیار سے ”جابابا معاف کر” کہہ دیا ہے، امریکہ سارے مطالبات منوا کر بھی آئی ایم ایف کو گرین سگنل نہیں دے رہا، ایسے میں حسین نقی نے اپنے تاریخی مشاہدے کی بنیاد پر جو باتیں کی ہیں وہ زلمے خلیل زاد کی باتوں کا تسلسل ہے، امتیاز عالم نے اس میں اچھا اور بصیرت افروز اضافہ کیا، پاکستان کی سول سوسائٹی اگر اس ٹھہرے ہوئے بحران کو جو ملک کی رگِ جاں میں سرایت کرتا جا رہا ہے راہ دینے میں اور حکومت کی فیس سیونگ کا بندوبست کرنے میں کامیاب ہوتی ہے تو یہ اس بحران کو داخلی بنیاد پر حل کرنے کی طرف اہم قدم ہو سکتا ہے، داخلی قوتیں ناکام ہوجائیں تو باہر والوں کے لئے مشوروں کی حد تک ہی نہیں عملی میدان میں مداخلت کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  موروثی سیاست ۔ اس حمام میں سب ننگے