وزیرمملکت برائے پٹرولیم مصدق ملک کی اس بات سے عدم اتفاق کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ سستے فیول پروگرام پرآئی ایم ایف کا اعتراض نہیں بنتا’ ایک بیان میں وفاقی وزیر نے کہا کہ امیر کے لئے فیول مہنگا اورغریب کے لئے سستا کر رہے ہیں اور اس پروگرام پر کوئی سبسڈی نہیں ہو گی’ انہوں نے کہا کہ ملک میں سڑکوں پر دو کروڑ موٹرسائیکلیں ہیں’ اس سکیم سے 800 سی سی گاڑیاں ملا کر 2 کروڑ 14 لاکھ موٹر سائیکلیں اور گاڑیاں فائدہ اٹھائیں گی’ موٹر سائیکلوں پرماہانہ 420 ملین لیٹر پٹرول استعمال ہوگا’ گاڑیوں سمیت موٹر سائیکلز کے لئے ماہانہ461 ملین لیٹر فیول استعمال ہونے کا تخمینہ ہے جبکہ اس سستے فیول پروگرام پرآئی ایم ایف کا اعتراض نہیں بنتا’ غریب آدمی کو سو روپے لیٹر ریلیف پروگرام پر کام ہو رہا ہے، فیول کارڈ پر ڈائریکٹ ریلیف اور کوڈ کے ذریعے ریلیف کا جائزہ لیاگیا ہے جبکہ کوڈ کے ذریعے فیول کی فراہمی سب سے بہتر سمجھی گئی’ جہاں تک پٹرول پر غریب عوام کو سبسڈی دینے کا تعلق ہے تو آئی ایم ایف کی جانب سے اس پر تحفظات کا اظہار اور مالیاتی ادارے کی اجازت کے بغیر اس پروگرام پر عملدرآمد کو وفاقی وزیر پٹرولیم نے رد کر کے یقیناً اچھا فیصلہ کیا ہے ‘ بہرحال اب اس حوالے سے آئی ایم ایف کو مکمل تفصیل فراہم کرنے کے بعد اس کا رویہ کیا ہوتا ہے اور اس ضمن میں کسی سبسڈی کی عدم موجودگی کے باوجود اگر آئی ایم ایف چیں بہ جبیں ہوتا ہے تواس کا کارن کچھ اور ہوگا اور اس حوالے سے آجکل وہ جس طرح پاکستان کے ساتھ معاہدے کو مختلف شرائط کے ساتھ جوڑ رہا ہے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اصل مقاصد کچھ اور ہیں اور ان مقاصد کے پیچھے جو قوتیں موجود ہیں ان سے پاکستان کے عوام پوری طرح باخبر ہیں’ اس ضمن میں بعض امریکی شخصیات کے حالیہ بیانات سارے حقائق آشکار کر رہے ہیں جو آئی ایم ایف کے ذریعے پاکستان کے تزویراتی معاملات میں دخیل ہو کر اسے گھٹنے ٹیکنے اورنیوکلیئر اثاثوں پر کمپرومائز کرنے پر مجبور کر رہے ہیں ‘ حالانکہ آئی ایم ایف نے حالیہ دنوں میں خود واضح کیا تھا کہ وہ غریب لوگوں کے مقابلے میں امیر طبقے پر ٹیکسوں کے نفاذ کی حامی ہے مگر بغیر کسی سبسڈی کے اگر حکومت نے عوام کو ریلیف دینے کا پروگرام بنالیا ہے تو اس پر معترض ہونے کا کیا جواز بنتا ہے؟۔
