پیسکو کی صوبے کو منتقلی ۔۔ سوالیہ نشان

خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت نے پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی کا انتظام سنبھالنے سے مشروط طور پر ا نکار کردیا ہے، اخباری ا طلاعات کے مطابق اس وقت پیسکو کو 200 ارب سالانہ خسارے کا سامنا ہے جس کے باعث موجودہ حالت میں بجلی کی تقسیم کار کمپنی کا انتظام سنبھالنے سے انکار کر دیا ہے’ نگران وزیر اعلیٰ اعظم خان کی جانب سے وزیراعظم شہباز شریف کو ارسال کردہ مراسلے میں کہا گیا ہے کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی بدانتظامی اور مالی مشکلات کے باعث انہیں صوبوں کو منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے ایسے میں پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی کو خیبر پختونخوا کے سپرد کیا جائے گا جو 200 ارب روپے سالانہ خسارے کا شکار ہے جبکہ اس کے30 ارب روپے کے بقایاجات بھی ہیں’ امر واقعہ یہ ہے کہ پیسکو اس وقت قومی پالیسی کے تحت یکساں بجلی نرخ کا فائدہ اٹھا رہا ہے اور صوبے کو منتقلی کے بعد یہ صورتحال تبدیل ہو جائے گی کیونکہ صوبے کو اپنی ضرورت کے حوالے سے زیادہ بجلی پیدا کرنے کے لئے نرخوں میں کمی لانا پڑ سکتی ہے کیونکہ اس وقت ملک میں نہ صرف سستی ترین پن بجلی کے ساتھ ساتھ کوئلے’ گیس ‘ فیول وغیرہ سے جوبجلی پیدا کی جاتی ہے ان سب کو مرکزی گرڈ کے ذریعے یکساں نرخوں کے ذریعے ملک بھر میں تقسیم کیا جاتا ہے اور پیسکو کے صوبے کو منتقل ہونے کے بعد ممکنہ طور پر فیول ایڈجسٹمنٹ کے تحت ملنے والی رقم کو عدالتوں میں چیلنج کرکے ختم کیا جا سکتا ہے’ اس سے موجودہ آمدنی پر مزید دبائو پڑے گا اور عدالتوں کے احکامات کے نتیجے میں اس قسم کے سرچارج سے صوبہ محروم ہوسکتا ہے’ جوآمدنی میں مزید کمی کا باعث بن جائے گا، علاوہ ازیں صوبے کی پن بجلی کی خاص آمدنی بھی اس وقت تک صوبے کو اے جی این قاضی فارمولے کے تحت صحیح طور پر ادا نہیں کی جا رہی ہے اور پیسکو کی صوبے کو منتقلی کے بعد اس کی وجہ سے بھی آمدنی پر منفی ا ثرات مرتب ہوں گے’ کیونکہ واپڈا صوبے کی ادائیگی سے جان چھڑانے کی پالیسی اختیار کرسکتا ہے’ اس طرح پہلے ہی سے200 ارب سالانہ خسارے کا سامنا کرنے والا ادارہ پیسکو صوبہ خیبرپخونخوا کی کمزور معاشی صورتحال کیلئے مزید مشکلات کا باعث بن سکتا ہے’ اس لئے نگران وزیراعلیٰ کے مراسلے میں دی گئی تجویز پر عمل کئے بغیر صوبے کے لئے سود مند نہیں ہو سکتا یعنی پیسکو کی منتقلی تب قابل قبول ہوسکتی ہے جب بجلی کی پیداوار کے ساتھ ساتھ اس کی تمام آمدن بھی صوبے کو منتقل کی جائے’ اس اقدام سے صوبے میں وفاق کے تمام ہائیڈرو پاور سٹیشنز بھی صوبائی حکومت کو منتقل ہوجائیں گے’ صوبائی حکومت نے کہا ہے کہ پن بجلی منافع اور پیداوار سے متعلق ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن کی رپورٹ کو آئندہ مشترکہ مفادات کونسل میں پیش کیا جائے’ جبکہ وزراء کی ایک کمیٹی بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی صوبوں کو منتقلی کے حوالے سے سفارشات مرتب کرے اس کے بعد ہی اس حوالے سے حتمی فیصلہ کیا جا سکتا ہے’ ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ حالات کے تناظر میں یہ ایک درست فیصلہ ہے ا ور جب تک صوبوں کے تحفظات دور نہ کئے جائیں’ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو صوبوں کے حوالے کرکے انہیں مسائل سے دوچار نہ کیا جائے ۔

مزید پڑھیں:  قصے اور کہانی کے پس منظر میں