لائو تو قتل نامہ میرا، میں بھی دیکھ لوں

سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی کے سابق پرنسپل سیکر یٹری محمد خان بھٹی آجکل طوطے کی طرح بولتے ہوئے جو انکشافات کر رہے ہیں اور ان میں تو عدلیہ کے بعض اہم کرداروں پر جو جو الزامات سامنے آرہے ہیں ان سے ہمیں کوئی غرض نہیں ہے، تاہم انہوں نے بعض میگا پر اجیکٹس میں اربوں کی مبینہ کرپشن کے بارے میں حقائق بیان کرتے ہوئے ان پرا جیکٹس کو ”پیپر پراجیکٹس ” یعنی کاغذی منصو بے قرار دیا تو نہیں ماضی میں جھانکنے کا ایک بارپھر موقع مل گیا، جب ایوبی دور میں بھی ایک بہت بڑا منصوبہ بے نقاب ہوا تھا، تب ہم پاکستان کے سب سے بڑے اخبار کے پشاور بیورو میں سٹی رپورٹر کی حیثیت سے کام کرتے تھے اور یہ وہ زمانہ تھا جب پریس ٹرسٹ نے ملک کے کئی انگریزی اور اردو اخبارات کی ملکیت خرید کر ان کو ٹرسٹ کے زیر انتظام چلانا شروع کر دیا تھا’ اس وقت پشاور اور کراچی سے بیک وقت شائع ہونے والے روزنامہ انجام کو اس کے مالک عثمان آزاد کو بھاری معاوضہ دیکر اسے کراچی اور لا ہو ر سے سے شائع ہونے والے اخبار روزنامہ مشرق میں ضم کر دیاتھا’ تاہم بعض پیچیدگیوں کی وجہ سے اخبارات کے ڈکلریشن کے قانون کے تحت اس وقت ایک خاص مدت تک اخبار کے ”طغرے” یعنی روزنامہ مشرق پشاور کے نام کے ساتھ ایک پٹی یوں لکھی ہوئی نظر آتی تھی کہ ” اس میں روزنامہ انجام بھی شامل ہے ، روزنامہ مشرق کو جدید خطوط پر چلانے کیلئے نہ صرف ” آفسٹ” طباعت کا طریقہ اختیار کیا گیا بلکہ کچھ تجربہ کار افراد کو لاہور اور راولپنڈی سے پشاور تبدیل کر دیا گیا، جن میں مرحومین حبیب الرحمن، ہمایون فر اور محمد امین کے علاوہ آفسٹ پر ٹنگ کے اچھے کاریگر اور کچھ فوٹو گرافر بھی یہاں تعینات کئے گئے۔ جنہوں نے مقامی صحافیوں اور دیگرشعبوں کے ساتھ وابستہ افراد کے ساتھ مل کر اخبار کی اشاعت میں اہم کردار ادا کیا۔ مرحوم ہمایون فر کمال کے لطیفہ باز تھے، درجنوں نہیں سینکڑوں
لطیفے ہر موقع محل کے حوالے سے ان کے نوک زبان پر ہوتے تھے تیز تیز بولتے اور ہر لمحہ قہقہے بکھیرتے ان کے تیز بولنے کی وجہ سے ان کا نام ”ہمایون فر فر” کر دیا تھا کیونکہ ان کی زبان فراٹے بھرتی ہوئی ہر محفل میں انہیں نمایاں کرتی رہتی تھی، حبیب الرحمن صاحب ان کے مقابلے میںخاموش طبع بلکہ سنجیدہ شخصیت کے مالک تھے۔ جبکہ محمد امین صاحب مرحوم نستعلیق شخصیت رکھتے تھے۔
ہمایون فر سینئر رپورٹرتھے جبکہ حبیب الرحمان اور محمد امین صاحب ڈیسک ورک کے ماہرین میں سے تھے ‘ ٹیلی پرنٹر پر موصول ہونے والی خبروں کا ترجمہ کرتے اور اخبار کی سرخیاں جمانے کا فریضہ ادا کرتے تھے ‘ چونکہ اخبار کا کراچی اور لاہور میں پہلے یہ بڑا چرچہ تھا اس لئے پشاور میں قارئین کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے میں نت نئے تجربات بھی پشاور کی ٹیم کے ساتھ ساتھ لاہور کے ایک سینئر فیچررائیٹر ریاض بٹالوی بھی اکثر پشاور یاترا کرکے یہاں مختلف اداروں کے حوالے سے باتصویر فیچر تحریر کرکے عوام کی دلچسپی کا سامان مہیا کرتے ‘ ایک بار انہوں نے آکر پشاور میں ملیشیاء کے کپڑے سلوا کر اور سر پر چترالی ٹوپی رکھ کر لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے اندراس دور میں ہونے والی بدعنوانیوں ‘ عوام کے ساتھ ڈاکٹروں اور ماتحت عملے کی زیادتیوں اور ”سلوک” کو بطور مریض سامنے لا کر ا نہوں نے تہلکہ مچا دیا تھا خیر یہ تو چندجملہ ہائے معترضہ تھے ‘ جبکہ انہوں نے
ایک اہم تحقیقاتی رپورٹ میں پنجاب کے ایک دریا پرتعمیر ہونے والے میگا پراجیکٹ کے طور پر زبردست قسم کے پل کی اصلیت بے نقاب کرکے متعلقہ ڈیپارٹمنٹ کی غلط نجشیوں کی دھجیاں بکھیر دی تھیں ‘ یعنی بقول شاعر
قیامت چیخ اٹھی ہے چال پر اس فتنہ قامت کی
ارے ظالم قیامت کی ‘ ارے ظالم قیامت کی
یہ تو معلوم نہیں کہ ملک عزیز میں پیپر پراجیکٹس یعنی کاغذی منصوبوں کی ابتداء کب اور کیسے ہوئی تاہم جس منصوبے کا ہم ذکر کر رہے ہیں یعنی جسے مشرق کے لاہور ایڈیشن میں اس دور میں بے نقاب کیاگیا تھا وہ ایوبی آمریت کا دور تھا ‘ اور ہوا یوں کہ محولہ دریا(غالباً چناب یا ستلج ہوگا کہ اتنی مدت گزر جانے کے بعد پوری تفصیل تویاد نہیں البتہ وہ تحقیقاتی رپورٹ ضرور یاد ہے) پرایک زبردست قسم کے پل کی تعمیر کا منصوبہ بنا کر اس دور کے مطابق کروڑوں روپے خرچ کرکے پل کی نہ صرف تعمیر مکمل کی گئی بلکہ ہرسال اس کی دیکھ بھال اور مرمت پر لاکھوں روپے بھی خزانے سے حاصل کئے جاتے اور ان کے سامنے ماہانہ بنیاد پر محولہ پل پر اخراجات کی فائل لا کر رکھ گئی تو انہوں نے اس کی تفصثلات پڑھ کراس کودیکھنے کی خواہش کا اظہار محکمے کے جونیئر افسران سے کیا ‘ کہ ان کے خیال میں یہ اس دور کا ایک عجوبہ ہی تھا ‘ ماتحت افسروں نے ہر بار ان کی خواہش پر آئیں بائیں شائیں کرنا شروع کر دیا اور ان کی توجہ دیگر منصوبوں کی جانب پھیر دیتے تھے ‘ انہیں سمجھ نہیں آرہی تھی کہ آخر اتنے عظیم الشان منصوبے کا معائنہ کرانے ان کے نائب انجینئرز کیوں کنی کتراتے اورانہیں دوسری باتوں میں الجھا دیتے ہیں ‘ تنگ آکر آخر انہوں نے ایک جونیئر انجینئر کو اعتماد میں لیتے ہوئے اصل حقیقت بتانے پرآمادہ کر لیاتو اس نے ڈرتے ڈرتے گزارش کی کہ جناب آپ سے پہلے جو چیف انجینئر یہاں
تعینات تھے یہ ان کا ”کاغذی منصوبہ” تھا جس کا وجود صرف فائلوں کی حد تک تو موجود ہے مگر حقیقت میں یہ پل کبھی تعمیر ہی نہیں ہوا ‘ اور کروڑوں روپے کے فنڈز غتربود کر دیئے گئے ہیں ‘ نیاچیف انجینئرسر پکڑ کر بیٹھ گیا اور کہا ‘ اتنی مدت سے تم لوگ جو ہرماہ مرمت اور دیکھ بھال کے نام پرلاکھوں روپے میرے دستخطوں سے نکلواتے رہے ہو ‘ ان کی کیا حقیقت ہے ‘ نائب انجینئر نے بتایا جناب اس کے حصے بخرے تمام متعلقہ عملے میں بہ لحاظ عہدہ بانٹ دیئے جاتے ہیں کیونکہ اس کے بغیر چارہ بھی تو نہیں ہے ‘ کہ ایسے منصوبوں پرجاری اخراجات کی مد میں اخراجات کرنا قانونی تقاضا ہوتا ہے ۔ یہ سن کر چیف انجینئر نے کہا اس بارے میں تم لوگوں نے حقائق چھپا کر مجھے بھی بلاوجہ ملوث کرکے پھنسا دیا ہے’ اب اگر اوپر سے کوئی بڑا اور اعلیٰ سرکاری عہدیدار سن گن پا کر اس کے معائنے کے لئے آنے کی خواہش کرے تو میں کیا جواب دوں گا ‘ نائب نے نہایت اطمینان سے جواب دیا ‘ یہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے ‘ آپ ایک فائل موو( Move) کریں جس میں اس پل کو اتنی مدت تک پانی کے بہائو سے پہنچنے والے نقصان کے نتیجے میں مخدوش قرار دے کر اس کے گرانے کی اجازت طلب کریں اور فائل پر لکھ دیں کہ اگر اسے نہیں گرایا گیا تو کسی بھی وقت اچانک گرنے کی وجہ سے بڑی تعداد میں لوگ دریا میں گر کر جاں بحق ہو سکتے ہیں اور پل کے حصے قریبی آبادیوں کے لئے تباہی کا باعث بن سکتا ہے یوں اجازت ملنے پرتمام کا تمام فنڈز آپ رکھ لیں ‘ ہماری بھی جان چھوٹ جائیگی اور آپ کو اپنا حصہ بھی مل جائے گا تو حضور یہ جو محمد خان بھٹی نے ”کاغذی منصوبوں” کا انکشاف کیا ہے اس کی حقیقت اوپر بیان کردہ ”میگا پراجیکٹ” کی تعمیر سے لے کر ”تخریب” تک میں آسانی سے تلاش کی جا سکتی ہے کہ بقول استاد ابراہیم ذوق
لائو تو قتل نامہ میرا ‘ میں بھی دیکھ لوں
کس کس کی مہر ہے سر محضر لگی ہوئی؟

مزید پڑھیں:  ملتان ہے کل جہان