حکومت کی انگڑائیاں، سیا سی اٹکھلیاں

کئی سالو ں سے ملک میں سیا سی دھمال ہو رہا ہے ، عوام کو معلوم نہیں ہورہا ہے کہ ملک کس ڈگر جا رہا ہے ، اور جا بھی رہا ہے تو کس رخ جارہا ہے کیو ں کہ سیاست دانوں کی اٹکھلیاں ہیں کہ ختم ہو نہیں پارہی ہیں جبکہ ملکی معیشت ڈول رہی ہے یا جھول رہی ہے ، پتہ ہی نہیں چل رہا ہے غریب عوام اس کھیل میں پسے جارہے ہیں مگر اقتدار کے متولوں کو کوئی فکر نہیں بس ایک دوسرے کی کا ٹ میںلگے ہوئے ہیں منصب کا بھی احترام نہیں ۔ ادھر بھارت میں کانگر س کے لیڈر راہول گاندھی کو لوک سبھا سے نااہل قرار دے دیا انھیں ایک روز قبل سورت کی عدالت نے 2019کے فوجد اری ہتک عزت کیس میں خطا کار قرار دیا تھا سورت کی عدالت نے راہول گاندھی کو دو سال کی سزا سنائی تھی ، بی جے بی کے رکن اسمبلی پر نیش مو دی نے راہول گاندھی کی جانب سے یہ کہے جملے پر کہ چوروں کا نا م مو دی کیو ں ہو تا ہے شکایت درج کر ائی تھی۔ نااہل قرار پانے کے بعد راہول گاندھی آئندہ آٹھ سال تک الیکشن نہیںلڑ سکیں گے ، پاکستان میں دن رات سیا ست دان ایک دوسرے کو چور چور راگ درباری الا پتے رہتے ہیں ، پاکستان میں اس سے بھی بڑی خبر ہے کہ صد ر مملکت کو انتخابات کے لیے خط لکھنا پڑا ہے اپنے خط میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہاہے کہ وزیراعظم وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے متعلقہ حکام کو ہدایت کریں،پنجاب اور خیبرپختونخوا میں مقررہ وقت پر انتخابات کیلئے الیکشن کمیشن کی معاونت کی ہدایت کریںخط میں کہاگیاہے کہ وزیراعظم توہین عدالت سمیت مزید پیچیدگیوں سے بچنے کیلئے ہدایت کریں،متعلقہ انتظامی حکام کو انسانی حقوق کی پامالی سے باز رہنے کی ہدایت کی جائے۔خط میں ماضی قریب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو اجاگر کیاگیا،خط میں کہاگیاہے کہ ایسے واقعات کے تدارک کیلئے وزیراعظم کے نوٹس میں لانے کی ضرورت تھی،اسمبلیوں کی تحلیل پر آرٹیکل 224 (2) کے تحت90دن میں انتخابات کرانا ضروری ہیں۔صدر عارف علوی نے کہاکہ گورنر خیبرپختونخوا کو بھی تاریخ مقرر کرنے کاحکم دیا گیا تھا،سرکاری محکموں نے آئین کی خلاف ورزی کی ہے،الیکشن کمیشن نے پنجاب میں انتخابات کیلئے سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی کی،تشویشناک ہے وزیراعظم نے صدر کے ساتھ مشاورت نہیں کی۔صدر مملکت نے وزیراعظم کی توجہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی جانب مبذول کرائی،خط میں طاقت کے غیر مناسب استعمال کی سنگینی کا بھی ذکرکیا گیا، صدر عارف علوی نے کہاکہ سیاسی کارکنوں کے گھروں پر چھاپے مارے گئے ، شہریوں کو بغیر وارنٹ کے اغوا کیا گیا۔یہا ں یہ سوال پیدا ہو تا ہے کہ پچھلے دور میں جب صحافی مطیع اللہ جان کو بھی بغیر وارنٹ اٹھایا گیا اور اس دور میں ایسے کئی واقعات ہوئے ان کی طرف کتنی مرتبہ ایوان صدر سے توجہ دلائی گئی ۔ صدر مملکت نے کہاکہ ایسے واقعات سے عالمی برادری میں پاکستان کا امیج خراب ہوا، پاکستان میں جمہوریت اور انسانی حقوق کی صورتحال پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں،وزیراعظم ہر شہری کے حقوق کے تحفظ کے ذمہ دار ہیں۔ایو ان صدر سے جاری ہونے والے خط میں بہت سے نکا ت پر سوال اٹھتے ہیں ، جن خلا ف ورزیوں کا خط میں ذکر کیا گیا ہے کیا وہ گزشتہ دور اقتدار میں نہیں ہورہی تھیں اس وقت کیوں خیال نہیں رہا کہ خط لکھ دیا جائے ۔ صدر مملکت کے خط کے ا س نکتہ سے سبھی کو اتفاق ہے کہ عالمی برادری میں پاکستان کا امیج خراب ہو ا ہے مگر امیج کو ن کو ن خراب کر رہا ہے اس پر بھی غیر جانبدارنہ بات ہو نی چاہیے ، پی ٹی آئی کے سربراہ جب امریکی سائفر لہر ایا کر تے تھے تب ان کا موقف تھا کہ حزب اختلا ف کا کیا تعلق ہے کہ وہ غیر ملکی سفیر وں سے ملاقات کرتے ہیں ، ماضی قریب میں خود عمر ان خان نے امریکی سفیرسمیت غیر ملکی نمائندو ں سے ملا قات کی اور تازہ ترین اطلا ع ہے کہ پی ٹی آئی کے ایک وفد نے یو رپی یو نین کے اسفار سے ملا قات کی ہے اور پاکستان کے مو جو دہ حالات پر ان سے تبادلہ خیال کیا ہے ۔ یو رپی یونین کے ساتھ پاکستان کی تھا رت کی شرح ساٹھ فی صد سے زیا دہے ، علاوہ ازیں شریں مزاری نے غیر ملکی تنظیموں کو خط لکھے ہیں ، اس کا کیا مْقصد ہے کہا پاکستان پر غیر ملکی دباؤ ڈلوانا ہے ، اگر اس بنیا د پر پاکستان پر دباؤ پڑگیا تو کیا یہ دباؤ موجو دہ حکومت تک محدود ہو گا یا پھر اس کے اثرات پورے ملک پر پڑیں گے ۔جب سے عمر ان خان نے امریکی لابنگ کمپنیو ں کی خدما ت حاصل کی ہیں تب سے یہ دیکھنے کو ملا ہے کہ امریکا کی بعض بااثر شخصیا ت کے تشویش ناک بیا نات آنا شروع ہوگئے ہیں یہا ں تک کہ زلمے خلیل زاد کے بیانات پاکستان کے اندرونی معاملا ت میں کھلم کھلا مداخلت قرار پاتے ہیں اگر زلمے خلیل زاد بہت بڑے انسانی حقوق کے چمتکا ر ہیں تو ان کی آنکھ میں مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بربریت کیوں نہیں کھٹکتی ۔ اس وقت زلمے خلیل زاد کو پاکستان ہی کھٹک رہا ہے جب امریکا ماورائے عدالت افغانستان میں ہلاکتیں کر رہا تھا تو وہ اس وقت افغانستان میں امریکا کی نمائندگی کررہے تھے ، اس سے بڑی خبر یہ گھوم رہی ہے کہ اٹارنی جنرل شہزاد عطاالہی نے استعفیٰ دے دیا ہے ، ان کی جگہ عرفان قادر یا منصور اعوان کو لایاجا رہا ہے ، منصور اعوان کی پہلے بھی تقرری کا مرحلہ طے ہو ا تھا صدر مملکت نے منظوری بھی دے دی تھی تاہم دباؤ(اسٹبلشمنٹ کی طرف سے نہیں )آجا نے کی وجہ شہزاد عطاالہی کی تقرری ہو ئی ۔ اس متوقع تبدیلی کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ حکومت نے اب انگڑائی لی ہے اور وہ اب بھر پور انداز میں کردار اداکرنے کا ارادہ کرتی ہے ، چنا نچہ یہ تبدیلی اس طر ف اشارے کررہے ہیں ، عرفان قادر جو اس وقت داخلہ امو ر کے مشیر کا عہد ہ سنبھالے ہوئے ہیں دبنگ ما ہر قانون دان گردانے جا تے ہیں پی پی کے ایک سابق دور میں اٹارنی جنرل کے فرائض انجا م دے چکے ہیں ۔ علا وہ ازیں منصور اعوان بھی عالمی شہرت کے ماہر آئین و قانو ن ہیں دنیا کی جو سب سے بڑی دس کاروباری کمپنیاں قرار پاتی ہیں ان کے مقدما ت کی پیر وی کر تے رہے ہیں اب بھی یہ عالمی سطح کی کمپنیاں ان کی خدما ت حاصل کرتی ہیں ، آئندہ چند دنو ں کے بارے میں سیا سی نجومی پیش گوئی کر رہے ہیں کہ اہم ترین دن ہیں ، مگر وہ بھی یہ بتانے قاصر ہیں کہ آخر ہو نے کیا جا رہا ہے ، کیا انتخابات پی ٹی آئی اور صدر مملکت کی خواہش کے مطا بق منعقد ہوجائیں گے یا اکتوبر میںہی ہو ں گے سیاسی گھٹائیں تو گرج رہی ہیں کہ امسال صرف گرج ہی ہو گی وہ بھی بناچمک ۔

مزید پڑھیں:  میر علی میں دہشت گردی