مشرقیات

ہارون رشیداچھے بھلے آدمیوں میں سے تھا حاکم وقت تھا بڑی شان سے حکومت کرتا تھا ایک بزرگ تھے بہت بڑے بزرگ نام ان کا تھا شقیق بلخی ایک بار اتفاق ایسا ہواکہ ہارون رشیدسے ان کی ملاقات ہو گئی وہ جانتا تھا کہ بزرگوں کا احترام کرنا چاہئے اور جب ایسی ہستیوں سے ملاجائے تو ان سے علم و عقل کی باتیں سننی چاہئیں تاکہ زندگی بنے اور سنورے امیر ہو کہ غریب بادشاہ ہو کہ فقیر عالم ہو کہ جاہل سب کو نصیحت کی ضرورت ہوتی ہے آدمی سے بھول چوک ہو ہی جاتی ہے کوئی نصیحت کرنے والا صحیح بات بتانے والا ہو تو اپنی غلطی معلوم ہوتی ہے بھلا آدمی وہ ہوتا ہے جو غلطی معلوم ہوجائے تو اپنی اصلاح کر لیتا ہے جو ایسا نہ کرے وہ بھلائی سے بھاگنے والا ہوتاہے ۔حضرت شقیق بلخی ملے تو ہارون رشید نے پوچھا آپ ہی اس دور کے زاہد ہیں جواب ملا۔ میں تو شقیق ہوں ہارون رشید چپ ہوگیا اسے احساس ہوا کہ اس نے غلط سوال کیا کوئی اپنے آپ کو اپنی زبان سے عابد و زاہد کہہ سکتا ہے نہیں جو کہے تو سمجھ لیجئے کہ ضرور اس میں کچھ نہ کچھ کھوٹ ہوگا۔کچھ وقت ساتھ گزارا تو ہارون رشید نے کہا۔ حضرت والا کچھ نصیحت کیجئے کہ میں اپنے پلے باندھ رکھوں فرمایا تو حکومت کرتاہے توایک بات کا خیال رکھ ہارون نے پوچھا ۔۔کس بات کا۔
فرمایا تجھے صدیق اکبر کی جگہ بٹھایاگیا ہے تجھ سے معاملہ فہمی تدبر اور سچائی ہونی چاہئے جیسی کہ ان میں تھی تجھے عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی جگہ بٹھایا گیا ہے اس لئے تجھ میں عدل ہونا چاہئے اور حق وباطل میں فرق کرنے کی قوت تجھ میں تسخیر کائنات کی صلاحیت ہونی چاہئے جیسی ان میں تھی تجھے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی جگہ بٹھایا گیا ہے تجھ میں حیات مروت کرم غصے پر قابو کی صفتیں ہونی چاہئیں جو ان میں تھیں اے اللہ کے نیک بندے یاد رکھ کہ تجھے علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی جگہ بٹھایا گیا ہے تجھ میں اخلاص علم و زہد ہونا چاہئے جیسا کہ ان میں تھا ہارون رشید خاموشی سے ایک ایک بات سنتا رہا بولا۔ حضرت کچھ اور ارشاد ہو حضرت شقیق نے فرمایا ایک جگہ ہے تجھے اس کا دربان بنایاگیا ہے ہارون رشید نے پوچھا ۔۔ کس جگہ کا دربان مقرر کیاگیا ہے؟۔۔۔ فرمایا اس کانام دوزخ ہے تجھے اس کا دربان بنا کر تین چیزیں دی گئی ہیں ہارون رشید نے پوچھا وہ کونسی؟ فرمایا ۔۔ ایک خزانہ ہے ‘ایک تازیانہ ہے اور ایک تلوار تیرے لئے حکم ہے کہ ان تینوں چیزوں سے کام لے جو تنخواہ دار یا حاجت مند ہوں انہیں بیت المال سے دے امانت اور دیانت سے اس کی ایک ایک پائی خرچ کر کوئی حلال اور حرام کی تمیز نہ کرے جائز و ناجائز میں فرق نہ کرے قانون پر نہ چلے تو اے تزیانے سے سبق سکھا اس میں ادب تمیز’شائستگی اور دوسروں کے لئے خیر خواہی کے جذبات پیدا کر حکمران کا خوف اٹھ جائے تو امن باقی نہیں رہتا اگر کوئی کسی کی ناحق جان لے یا تری مملکت کی سرحدوں کو پامال کرے توپھرتلوار اٹھا اگر تو ایسا نہ کرے گا تو یاد رکھ دوزخیوں کا سردار بنے گا اور تیرے ساتھی درباری تیرے عہدیدار اور تیری ہاں میں ہاں ملانے والے تیرے ساتھ جہنم سدھاریں گے ہارون رشید یہ سن کر دیر تک چپ رہا۔امام غزالی نے لکھا ہے پھر اس نے کہا کچھ اور ارشاد ہو حضرت شقیق نے فرمایا۔ چشمے سے نہریں نکلتی ہیں ہر طرف پھیل جاتی ہے سمجھ لے کہ تو چشمہ ہے تیرے نائب تیرے عمال تیرے عہدیدار نہریں ہیں یاد رکھ اگر چشمہ صاف ہو گا تو نہریں بھی صاف ہونگی ہارون رشید نے یہ باتیں سنیں تو دعا مانگی ۔۔ خداوند مجھے ان نصیحتوں پرعمل کی توفیق عطا فرما میں بہت کمزور اور بہت گہنگار آدمی ہوں۔

مزید پڑھیں:  الزام یا سچائی؟