کند چھری سے شہری ذبح

رمضان المبارک کے ابتدائی آیام ہی میں پشاور کے مختلف علاقوں میں ناجائز منافع خوروں نے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں خود ساختہ اضافہ کردیا ہے بڑھتی قیمتوں نے شہریوں کے ہوش اڑا کر رکھ دیئے ہیں ماہ رمضان المبارک میں سحر اور افطار کیلئے خریداری بھی مشکل بنا دی ہے ایک ہی دن میں ہی قیمتوںکو دوگنا بڑھا دیا ہے۔پشاور اور اس کے مضافاتی علاقوں میں گوشت کی قیمتوں میں بھی خاص طور پر من مانا اضافہ کیا گیا سب سے زیادہ اضافہ سبزیوں میں آلو اورپیاز کی قیمتوں میں کیا گیا ہے جبکہ گوشت اور قیمہ میں دو سو روپے فی کلو کا اضافہ ایک ہی دن میں کردیاگیاہے مختلف کجھوروں کی قیمتوں میں بھی اضافہ کردیا گیا ہے فروٹ کی قیمتوں کو بھی پر لگ گئے ہیں تاہم دوسری جانب غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے ضلعی انتظامیہ کے افسران نے گھروں سے باہر نکلنا چھوڑ دیا ہے تاجر من مانے نرخ وصول کررہے ہیں جس کی وجہ سے شہریوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ رمضان المبارک کی آمد پر ایک طرف لوگ بے تحاشہ خریداری کے لئے بازاروں میں اس طرح امڈ آتے ہیں اور اس تعداد اور کثرت سے خریداری ہوتی ہے اور لوگ مہنگے داموں بھی اشیاء خریدنے پر مجبور ہوتے ہیں کچھ احتراز کی گنجائش ہو بھی تو مہنگائی کے باجود اس پر توجہ نہیں دی جاتی اس نفسیاتی کیفیت کا تجار پوری طرح فائدہ اٹھاتے ہیں اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ رمضان المبارک کے دوران اور عیدالفطر تک ذخیرہ اندوزی کرنے والے اپنا سارا مال نکالنے اور وہ بھی دوگنے دام وصول کرنے کی جو منصوبہ بندی کرکے اس پر عمل پیرا ہوتے ہیں ان کے سامنے حکومت اور انتظامیہ پوری طرح بے بس ہوتی ہے ابھی رمضان المبارک کو دوتین دن ہی گزر گئے ہیں کہیں بھی انتظامیہ گراں فروشوں کی خبر لینے کے لئے آرام گاہوں سے باہر نہیں نکلی ہے میڈیا کے شورمچانے پر ایک دو دن نمائشی چھاپوں کے بعد عوام کو مافیا کے رحم وکرم پر چھوڑنے کے پرانے طریقہ کار کا اعادہ ہوگا اور پھر عوام مزید سے مزید مہنگائی کا شکار ہوں گے ۔ نگران حکومت کو اس صورتحال پرقابوپانے کے لئے بروقت اقدامات کی ضرورت تھی اب وقت گزر چکا لیکن پھربھی اگر انتظامیہ کی ٹیمیں ہر مارکیٹ جا کر معائنہ کریں اور سرکاری نرخنامے پر عملدرآمد کا کمال دکھا سکیں تو یہ بھی غنیمت ہو گی۔توقع کی جانی چاہئے کہ اس سلسلے میں مزید تاخیر کامظاہرہ نہیں کیا جائے گا اور ذخیرہ اندوزوں وگران فروشوں کے خلاف رمضان بھرموثر مہم چلائی جائے گی۔

مزید پڑھیں:  مزید کون سا شعبہ رہ گیا ہے ؟