آئی ایم ایف سے معاملت میں تاخیر

آئی ایم ایف نے پاکستان کوقرض فراہم کرنے کے لئے معاہدے سے چارنکات پرعملدرآمد کی شرط عائد کردی،نئی شرائط میں پٹرول سستاکرنے کی سکیم پراتفاق رائے اوربیرونی مالیاتی یقین دہا نیوں کی شرط بھی شامل ہے۔آئی ایم ایف کے مطابق بیرونی شراکت داروں کی بروقت مالی امداد جائزے کی کامیابی یقینی بنانے میں اہم ہوگی، پاکستان کو دیگر مالیاتی اداروں اور دوست ممالک سے بھی مالی تعاون یقینی بناناہے، ان مالیاتی یقین دہانیوں کے بعد پاکستان کے ساتھ اگلا قدم اٹھاسکیں گے۔ اتحادی حکومت اور آئی ایم ایف فروری کے اوائل سے ہی ایک معاہدے پر بات چیت کر رہے ہیں جس کے تحت پاکستان کو ایک ارب دس کروڑ ڈالر جاری کیے جائیں گے۔اب اس معاہدے کی راہ میں تازہ ترین مسئلہ ایک منصوبہ ہے، جس کا اعلان گزشتہ ہفتے وزیر اعظم شہباز شریف نے کیا تھا۔منصوبے کے تحت دولت مند صارفین سے ایندھن کے لیے زیادہ قیمت وصول کی جائے گی اور اس رقم کو مہنگائی سے شدید متاثرہ غریبوں کو قیمتوں میں سبسڈی دینے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔دریں اثناء چین نے پاکستان کے لیے دو ارب ڈالر کا سیف ڈپازٹ قرض رول اوور کر دیا ہے۔ وزارت خزانہ کے حکام نے چین کی جانب سے سیف ڈیپازٹ قرضہ رول اوور کرنے کی تصدیق کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ چین کے بعد سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے بھی جلد فنانسنگ کی توقع ہے۔وزارت خزانہ ذرائع کا کہنا ہے کہ رواں ماہ چین سے مزید30کروڑ ڈالر پاکستان آنے کی توقع ہے اور رواں ماہ زرمبادلہ کے ذخائرپانچ ارب ڈالر سے تجاوز کرنے کی امید ہے۔ذرائع وزارت خزانہ کا مزید کہنا ہے کہ چین نے دوارب ڈالر کے سیف ڈپازٹ کی واپسی ایک سال کے لئے موخر کی ہے، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے بھی فنانسنگ کی امید ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ ہماری معیشت کوامید پردنیا قائم ہے کے اصول پرچلا یا جارہا ہے اور روزانہ و ہفتہ وار انتظامات کے تحت معاملات کو آگے بڑھایا جارہا ہے اس کا کوئی مستقل حل تلاش کرنے کی سعی کہیں نظرنہیں آتی۔ آئی ایم ایف کی نت نئی شرائط پر معاشی صورتحال کو کسی نہ کسی طرح قابو میں رکھنے میں دوست ممالک کی جانب سے پاکستان کی دستگیری ہو رہی ہے جس میں چین خاص طور پر قابل ذکر ہے لیکن بہرحال معیشت پر بوجھ بڑھتا جارہا ہے اور بالاخر موخر ادائیگیوں کی ادائیگیاں کرنی ہوں گی۔ البتہ اس سے وقتی طور پر پاکستان کابوجھ کم ضرور ہوا ہے ۔مگر اس کے باوجود ابھی کم از کم تین سے چار ارب ڈالر کے مزید بندوبست کی ضرورت ہے جو موجودہ حالات میں آسان نظرنہیں آتا صرف یہی آئی ایم ایف کے معاہدے کی راہ کی رکاوٹ نہیں بلکہ عام آدمی کو پٹرول پرسبسڈی کامنصوبہ کس طرح قابل عمل بنایا جاتا ہے اور یہ کس حد تک موثر و کارگر ثابت ہوتا ہے اس سے قطع نظر اس تعجیلی فیصلے پر آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات میں مزید التواء آگیا ہے بہرحال مشکل امر یہ ہے کہ حکومت ہر وہ اقدام جس سے عوام پر بوجھ میں اضافہ ہوتا ہے اس پر عملدرآمد میں مستعدی کامظاہرہ کرتی آئی ہے مگر وہ ذمہ داریاں جن کی ادائیگی حکومت کا ذمہ ہو اس میں کامیاب نہیں ہو پائی ہے دوست ممالک پر آخر کب تک اعتماد کیا جائے اس ضمن میں جنوری میں ورلڈ اکنامک فورم سے خطاب میں سعودی وزیر خزانہ نے جن خیالات کا اظہار کیا تھا اس سے سعودی عرب کی آئندہ کی پالیسی واضح ہے انہوں نے کہا تھا کہ وہ غیر مشروط گرانٹس اور ڈیپازٹس کی پالیسی کو تبدیل کر رہے ہیں ہم اپنے لوگوں پر ٹیکس لگا رہے ہیں اور دوسروں سے بھی ایسا ہی کرنے کی توقع رکھتے ہیں علاوہ ازیں بھی انہوں نے اس خطاب میں بڑے واضح اندازمیں اس امر کا واضح عندیہ دیا تھا کہ سعودی عرب سے اب مزید توقعات نہ رکھی جائیں اور خود معاشی اصلاحات اور ٹیکس وصول کی شرح بڑھا کر اپنے معاشی مشکلات میں کمی لائی جائے ۔اس چشم کشا درس کے باوجود بھی ہم امیدوں کادامن چھوڑنے پرتیار نہیں اور نہ ہی اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کی تگ و دو میں دکھائی دیتے ہیں اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہوگی کہ ہماری ملکی معیشت کی حالت یہ ہو گئی ہے کہ ہم ایک ملک سے قرض لے کر یا پھر واپسی کا وقت بڑھا کر وقتی طور پر مشکل صورتحال سے نکلتے ہیں مگر ایسا کب تک۔ آئی ایم ایف کی بھی شرط اور منشاء یہی ہے کہ ان سے قرض حاصل کرنے سے قبل پاکستان دیگر ذرائع سے بھی کچھ حاصل کرلے جبکہ دوست ممالک کی خواہش ہے کہ ہم پہلے آئی ایم ایف سے ڈیل کر لیں اس کے بعد وہ جتنا ممکن ہوسکے ہماری مدد کریں گی یعنی قرض دیں گے حکومت کے رویئے اور اقدامات سے ایسا نہیں لگتا کہ وہ آئی ایم ایف سے حتمی معاہدہ کرنے میں سنجیدہ ہے ایسا لگتا ہے کہ حکومت یہ بار اپنے دور میں اٹھانے کی خواہشمند نہیں اور سبسڈی جیسے بے موقع فیصلے کا مقصد ہی اس عمل میں تاخیر کے حالات پیدا کرنا تھے بہرحال یہ ایک عمومی خیال ہے جس کا درست ہونا ضروری نہیں لیکن بہرحال یہ سوال اپنی جگہ درست ہے کہ بجائے اس کے کہ آئی ایم ایف سے معاملات نمٹائے جائیں اسے طول دینے کا حامل ایک قدم ضرور اٹھایاگیا ہے عام آدمی کو سبسڈی دینے کا اقدام احسن ہے جس پر حکومت منصوبے کے مطابق عمل کرسکے اور امیروں سے وصول کرکے عام آدمی کو سبسڈی دے سکے تو یہ احسن کام ہو گا۔

مزید پڑھیں:  سنگ آمد و سخت آمد