2 177

اسی سیاہ سمندر سے نور نکلے گا

کسی زمانے میں تپ دق کا مرض لاعلاج تھا اور لوگ اس سے اتنا ہی خوف کھاتے تھے جتنا کورونا وائرس سے دنیا بھر کے لوگ خوف زدہ ہیں۔ ہم چھوٹے تھے ان دنوں اور متعدد کتابوں کے مصنف اور شعبہ صحافت سے وابستہ رہ کر روزنامہ مشرق پشاور سے ریٹائر ہونے والے اپنے چچا علاء الدین عدیم کے ہمراہ کوہاٹ کے لیاقت میموریل ہسپتال سے منسلک ایک کوارٹر میں رہائش پذیر تھے کیونکہ ان دنوں ہمارے چچا پیشہ طب سے منسلک تھے۔ آپ پشاور شہر کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں ملازمت کرتے تھے اور سرکاری ملازمت کے دوران تبادلے تو ہوتے ہی رہتے ہیں، سو ہمارے چچا جان کا تبادلہ لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور سے لیاقت ہسپتال کوہاٹ میں ہوا تو ان کو وہاں رہائش اختیار کرنے کی غرض سے ہسپتال کے عملے کیلئے ہسپتال سے منسلک رہائشی کالونی میں ایک سرکاری کوارٹر بھی الاٹ کیا گیا، جہاں ہم بھی چچا جان کے ہمراہ ہو لئے کہ یہی ان کی خواہش یا ضرورت تھی، سو ان کے گھر کے سامان کیساتھ ہم کو بھی ایک ٹرک میں بھر کر کوہاٹ پہنچا دیا گیا۔ کوہاٹ میں رہائش اختیار کرنے کے دوران ہمیں اپنے بچپن کے وہ ساتھی بھی ملے جن میں سے اکثر بیتے دنوں کی بھولی بسری یادوں کی طرح ذہن وشعور سے اوجھل ہوچکے ہیں۔ ایک عیدو تھی جو یاد رہ گئی۔ اس کاغذ کی کشتی اور بارش کے پانی کی طرح جسے بچپن کے سنہرے دنوں کو یاد کرنے والے رہ رہ کر کہا کرتے ہیں
یہ دولت بھی لے لو یہ شہرت بھی لے لو
بھلے چھین لو مجھ سے میری جوانی
مگر مجھ کو لوٹا دو بچپن کا ساون
وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی
عیدو کے گھر والے کسی ایسے علاقے سے تعلق رکھتے تھے جہاں وہ فارسی بولی جاتی ہوگی، اس لئے عیدو اور اس کی بہن پلوشہ کھیل کود کے دوران فارسی کے بالک ٹپے گاتی تھیں۔ ”ایلو شوکت جان۔ کمر بند مارا قائم گرفتار۔ مارا ظالم گرفتار۔ ایلو شوکت جان’ میری بانچھیں کھل اُٹھتی تھیں گھر کے کسی برتن کو بجاتے ہوئے اس کی تال پر اپنے نام کی گرہ یا پیوند لگے گیت کو سن کر۔ آنکھ مچولی۔ چنجو۔ گیند گٹیا، گڈے گڑیا کی شادی جانے اس قسم کے کتنے کھیل تھے جو ہم مل کر کھیلتے اور کھیل کود کے دوران دوڑتے ہوئے ہسپتال کے علاقہ ممنوعہ کی طرف نکل جاتے اور جب چچا جان کو ہماری اس حرکت کی دھنک پڑتی تو ہماری شامت آجاتی۔ ہسپتال کے جس علاقہ کو ہم نے علاقہ ممنوعہ کا نام دیا وہاں جانے پر چچا جان کی طرف سے اسلئے پابندی عائد کی گئی تھی کہ وہاں ٹی بی یا تپ دق کے مریضوں کی وارڈ تھی اور ان دنوں ٹی بی یا تپدق کو ایک لاعلاج متعدی مرض سمجھا جاتا تھا۔ ٹی بی کے مریض کے پاس جانا تو دور کی بات اس کے استعمال میں آنیوالے برتن کپڑے اور دیگر اشیاء کو چھونا یا جس فضا میں وہ سانس لے رہا ہوتا اس کے قریب پھٹکنا بھی صحت کی خیر منا نے وا لوں کیلئے مضر اور خطرناک سمجھا جاتا تھا۔ پرانی المیہ رومانوی فلموں کے بیشتر مرکزی کرداروں کو ٹی بی کے مرض میں مبتلا کرکے بچھڑنے والے محبوب کی یاد میں گھٹ گھٹ کر مرتے دکھایا جاتا رہا ہے جس کی مثال دیتے ہوئے دلیپ کمار کی پہلی سپرہٹ کلاسیکل فلم ‘جگنو’ کو پیش کیا جاسکتا ہے۔1947میں بن کر پردہ سکرین پر کامیابی کے جھنڈے گاڑھنے والی اس فلم میں میڈم نورجہاں ‘جگنو’ کا کردار ادا کررہی تھیں جبکہ دلیپ کا نام سورج تھا۔ سورج اور جگنو کے درمیان رومانوی جدائی کی اس کہانی کا انجام جگنو کی تپدق کی بیماری کا بہانہ بنتی ہے اور یوں وہ آسمان پر چمکتے ہوئے چاند کو کھانس کھانس کر مخاطب ہوکر کہتی رہ جاتی ہے کہ
ہمیں تو شام غم میں کاٹنی ہے زندگی اپنی
جہاں وہ ہیں، وہیں لے جا چاند، یہ چاندنی اپنی
اصل میں ان دنوں ٹی بی خوفناک اور ناقابل علاج متعدی مرض تھا، اور اس کیخلاف جہاد کرنے وا لے صاحبان قلب ونظر نے انسداد تپدق جیسی تنظیمیں بنا رکھی تھیں۔ جن میں سماجی بہبود کا جذبہ رکھنے والے کارکنوں کی قیادت تقدس مآب پیشہ طب سے منسلک ڈاکٹرز کرتے تھے۔ دکھی انسانیت کو موت کے خونی پنجوں سے بچانے والے ملک اور قوم کے یہ مسیحا اپنی محنت شاقہ جہد مسلسل اور ٹیم ورک کے ذریعہ اس لاعلاج مرض کا علاج دریافت کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ آج کل تو ٹی بی کے علاوہ کینسر اور پولی تھیمیا جیسے بھیانک امراض بھی ناقابل علاج نہیں رہے، اس لئے امید واثق ہی نہیں یقین کامل ہے کہ حضرت انسان کی ان تھک کوششوں کے نتیجے میں کورونا جیسے لاعلاج مرض کا علاج بھی دریافت ہوکر رہے گا۔ بہت سی آنکھوں سے برستے آنسوؤں کی برسات ان ڈاکٹروں کو سلام پیش کر رہی ہے جن میں گلگت کے جواں سال ڈاکٹر اسامہ شہید بھی ہیں جو مریضوں کی سکریننگ کرتے ہوئے انفیکشن کا شکار ہوکر خالق حقیقی سے جا ملے، شہر قائد کے سکن سپیشلسٹ ڈاکٹر عبدالقادر سومرو بھی جو کرونا کا شکار ہوکر جام شہادت نوش کرگئے اور صوبہ پختونخوا کے حیات آباد میڈیکل کمپلیکس کے ای این ٹی سپیشلسٹ ڈاکٹر محمد جاوید جو شہادت کا رتبہ پاکر امر ہوگئے اور پھر ہم نے تڑپتے دل کی دھڑکنوں کے شور میں قائداعظم میڈیکل کالج کی گریجویٹ، جواں سال ڈاکٹر رابعہ کی شہادت کی خبر سنی تو ہم تڑپ کر رہ گئے، ڈاکٹروں، نرسوں اور ان کے ہم قدم اور شانہ بشانہ عملہ کا ہر فرد خراج تحسین کا حقدار ہے جو کرونا جیسے موذی مرض کو شکست دینے کیلئے اپنی متاع جان تک قربان کرنے کو ہمہ وقت تیار رہتے ہیں، جیسے وہ پکار پکار کر کہہ رہے ہوں
مرے جنوں کا نتیجہ ضرور نکلے گا
اسی سیاہ سمندر سے نور نکلے گا

مزید پڑھیں:  پاک ایران تجارتی معاہدے اور امریکا