4 80

بیرونِ ملک پاکستانیوں کو واپس بھیجنا ضروری کیوں؟

کچھ دن پہلے وزیرِاعظم کے مشیرِ خاص ڈاکٹر معید یوسف نے پریس کانفرنس کی۔ اس کانفرنس کے اہم مقاصد میں سے ایک بیرونِ ملک پھنسے پاکستانیوں کی وطن واپسی کے حوالے سے (چند وضاحتوں کیساتھ) مستند معلومات کی فراہمی تھا۔ بیرونِ ملک پاکستانیوں کو وطن واپس لانے کی حکومتی کوششوں کی رہنمائی کرتے دکھائی دینے والے معید یوسف اس ٹاسک کیلئے موزوں انتخاب ہیں کیونکہ کچھ عرصہ قبل تک وہ خود بھی بیرونِ ملک مقیم پاکستانی تھے۔ ڈاکٹر معید یوسف کے مطابق متحدہ عرب امارات جیسی جگہوں پر ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی پھنسے ہوئے ہیں۔ کچھ تو اس قدر وسائل سے عاری ہیں کہ ان کے پاس رہنے کیلئے کوئی ٹھکانہ نہیں اور وہ سڑکوں پر شب وروز گزارنے پر مجبور ہیں۔
ایسے پاکستانیوں کو حکومت کے قائم کردہ اور مرتب کردہ معیار کے مطابق وطن واپسی کیلئے ترجیح دی گئی ہے کیونکہ انہیں فوری مدد کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ ان کے علاوہ 80ممالک سے زائد ملکوں میں پھنسے وہ پاکستانی جو حکومت کے قائم کردہ معیار پر پورا اُترتے ہیں انہیں بھی وطن واپس لانے کا بندوبست کیا جائے گا تاہم ممکن ہے کہ ان پاکستانیوں کو اپنی واپسی کیلئے مزید انتظار کرنا پڑے۔ وطن واپسی کے منتظر60 ہزار پاکستانیوں کیلئے یہ ضرور اچھی خبر ثابت ہوگی۔ تاہم بیرونِ ملک مختلف پاکستانی سفارتخانوں نے جتنی وطن واپسی کی پروازوں کا بندوبست کیا وہ مذکورہ پاکستانیوں کی تعداد کے مقابلے میں کافی کم ہیں۔ کچھ دن پہلے کولمبو میں پھنسے پچاس پاکستانیوں نے سری لنکن ایئرلائنز کی پرواز کے ذریعے وطن واپسی کی راہ لی تھی۔ چند روز قبل مزید چالیس افراد کو وطن واپس لایا گیا ہے۔ ایسی جگہیں جہاں پی آئی اے لینڈنگ حقوق نہیں رکھتی وہاں پھنسے پاکستانیوں کو واپس لانے کیلئے دیگر ایئرلائن (قطر ایئر ویز کا خاص طور پر نام بھی لیا گیا) کی پروازوں کے انتظامات کئے جا رہے ہیں۔ عالمی وبا اور لاک ڈاؤن نے کئی مختلف مسائل اور پریشانیوں کو جنم دیا ہے۔ ان پاکستانیوں کی مشکلات بہت ہی دردناک ہیں، جس کا اندازہ اس بات سے ہی لگائیے کہ جن ملکوں میں انہوں نے دہائیوں کام کیا وہاں وہ اب خود کو ”غیر مطلوب” محسوس کرنے لگے ہیں۔ کم از کم ساٹھ ہزار پاکستانیوں میں سے ہر ایک کی ملازمت سے محرومی کا مطلب یہ ہوا کہ ترسیلاتِ زر کی صورت میں لاکھوں روپے پاکستان منتقل ہونا بند ہوجائینگے۔ یاد رہے کہ یہی وہ ترسیلاتِ زر ہے جس کی بدولت پاکستان نے اپنی معاشی گاڑی کو اب تک کھینچا ہے۔ اس کے نتیجے میں ملکی جی ڈی پی کو پہنچنے والے نقصان کو پورا کرنے کیلئے حکومت کونسی منصوبہ بندی کر رہی ہے اس بارے میں بھی اگر وضاحت گوش گزار کردی جاتی تو اور بھی اچھا رہتا۔ شاید اس موضوع کو بحران زدہ حالات کے خاتمے تک منسوخ کردیا گیا ہے کہ جب بحران قصہ پارینہ بن چکا ہوگا اور ہم لوگ بے رحم وبا کے خوف کے بغیر بطور انسان ایک دوسرے کو دیکھ سکیں گے۔ ہوسکتا ہے کہ یہی معاملہ ہو لیکن پریس کانفرنس کے دوران وطن واپسی کے معاملے پر ہونے والی گفتگو میں مسئلے کا نصف حصہ مکمل طور پر نظرانداز کردیا گیا۔ ہزاروں پاکستانی جو بیرونِ ملک رہتے یا کام کرتے ہیں وہ پاکستان میں پھنسے ہیں اور بیرونِ ملک پروازوں کے منتظر ہیں۔ یہ وہ پاکستانی ہیں جن کے پاس اس وقت بھی بیرونِ ملک ملازمتیں ہیں اور وہ اب بھی بیرونِ ملک سے پاکستان رقوم بھیج سکتے ہیں۔ اس کے باوجود انہیں ان کے کام کی جگہوں پر پہنچانے والے کام پر زیادہ ترجیح نہیں دی گئی ہے، حالانکہ اب دنیا نے آزمائشی طور پر اپنے دروازے کھولنے کے بارے میں سوچنا شروع کردیا ہے۔ ایک تو بیرونِ ملک جانے کی کوششوں میں مصروف پاکستانی ملازمین کو باہر لے جانیوالی پروازیں ملنے میں دشواری پیش آتی ہے اوپر سے ان کیساتھ رویہ بھی کچھ اچھا نہیں برتا جا رہا۔ اگر حکومت ان پھنسے ہوئے پاکستانیوں کا مسئلہ حل کردے اور جن ممالک میں ان کی ملازمتیں ہیں انہیں وہاں بھیجنے میں معاونت کرے تو یہ ایک بڑی مدد ثابت ہوگی۔ اگرچہ امریکا اور کینیڈا جیسے ممالک کی حکومتوں نے اپنے شہریوں کیلئے چارٹڈ پروازوں کا بندوبست کیا ہے لیکن ویزا والے خواتین وحضرات اس سے استفادہ نہیں کر سکتے۔ اس صورتحال کا نتیجہ یہ برآمد ہوگا کہ بیرونِ ملک کام کرنیوالے متعدد پاکستانی پاکستان میں پھنسے ہونے کی وجہ سے اپنی ملازمتوں سے محروم ہوجائینگے کیونکہ دنیا کے مختلف حصوں میں معمولاتِ زندگی بحال ہونے کو ہیں۔ عالمی وبا نے ایسے مسائل کو جنم دیدیا ہے جن کے حل آسانی سے دستیاب بھی نہیں ہیں۔ تاہم جہاں تک واپسی کے معاملے کا تعلق ہے تو جن لوگوں کی پروازیں منسوخ کی جاچکی ہیں انہیں مہنگی قیمت پر ٹکٹ خریدنے پر مجبور نہ کرنا مکمل طور پر حکومت اور قومی ایئر لائن کے اختیار میں ہے۔ بیرونِ ملک پھنسے پاکستانیوں کو وطن واپس لانا وقت کی اشد ضرورت ہے، اس کیساتھ ساتھ بیرونِ ملک پاکستانیوں کو ان ملکوں میں بھیجنا بھی اہم ہے جہاں وہ ملازمت کرتے ہیں اور پیسے کما کر پاکستان بھیجتے ہیں۔
(بشکریہ : ڈان)

مزید پڑھیں:  صنعتی بستیوں کا قیام