5 82

نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر کا اجلاس

زندگی اور مسائل کا چولی دامن کا ساتھ ہے، اسی لئے کہتے ہیں اچھے طریقے سے زندگی گزارنا ایک مشکل تجربہ ہے۔ یہ نشیب وفراز کا ایسا سفر ہے جس میں خوبصورت باغ بھی ہیں اور خوفناک گھاٹیاں بھی! بس ہر قسم کے حالات سے گزرتے چلے جانے کا نام ہی زندگی ہے، مسئلے مسائل تو ہوتے ہیں مسئلے کا حل بھی ہوتا ہے لیکن جو کسی مسئلے میں اُلجھ جاتا ہے اسے سمجھ ہی نہیں آتی کہ اس کا حل کیسے تلاش کیا جائے؟ شاید مسئلے کی تعریف ہی یہی ہے اگر حل آسانی سے سمجھ میں آجائے تو پھر اسے مسئلہ ہی کیوں کہا جائے؟ شاید تمہید کچھ زیادہ ہی طویل ہوتی چلی جارہی ہے آج جو مسئلہ ہمیں درپیش ہے اس نے ہمیں چکرا کر رکھ دیا ہے! نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر کے اجلاس میں ملک بھر میں تجارتی مراکز صبح گیارہ بجے سے شام پانچ بجے اور رات آٹھ سے بارہ بجے تک کھولنے کی تجاویز منظور کر لی گئی ہیں اس میں دس مئی سے بازار اور ٹرانسپورٹ کھولنے کی سفارشات بھی شامل ہیں جن کے مطابق ملک بھر میں گیارہ مئی سے لاک ڈاؤن میں نرمی کردی جائے چھوٹی دکانیں پبلک ٹرانسپورٹ اور ڈومیسٹک پروازیں کھول دی جائیں۔ سکول، شادی ہال، ہوٹل، ریسٹورنٹ اور بڑے شادی ہال فی الحال بند رکھے جائیں! اجلاس میں ایک یہ تجویز بھی شامل ہے کہ مقامی سطح پر ٹرانسپورٹ کھول دی جائے، اڈہ مالکان اور ٹرانسپورٹر کرونا سے بچاؤ کیلئے ایس او پیز پر عمل درآمد یقینی بنائیں جبکہ ریلوے سروس کے حوالے سے یہ تجویز دی گئی ہے کہ اسے فی الحال بحال نہ کیا جائے! ایک عجیب سفارش یہ بھی دیکھنے میں آئی ہے کہ اتوار کو مکمل لاک ڈاؤن کیا جائے اور جلسے جلوسوں کی اجازت بھی نہ دی جائے (صرف اتوار کو مکمل لاک ڈاؤن کا کیا فائدہ ہوگا؟) یہ ساری سفارشات 31مئی تک کیلئے ہیں اور ان کی حتمی منظوری وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت جمعرات سات مئی کو قومی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں دئیے جانے کا امکان ہے۔ ہوسکتا ہے جس وقت آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہوں یہ منظور ی دی جاچکی ہو! یہ تو وہ سفارشات ہیں جو کرونا وائرس کی وجہ سے پیدا شدہ صورتحال کی روشنی میں دی گئی ہیں اور مشکل حالات میں اسی قسم کے فیصلے کئے جاتے ہیں لیکن یہاں صورتحال ایسی نہیں ہے کہ کوئی درمیانی راہ نکالی جائے اس کی وجہ معروضی حالات ہیں ہمارا خیال ہے کہ پشاور میں موجودہ لاک ڈاؤن جو یقینا جزوی ہے مکمل نہیں ہے جس میں چار بجے تک دکانیں کھلی رکھنے کی اجازت ہے، گلیوں میں سبزی فروش اپنے ٹھیلے لیکر پھر رہے ہیں لوگوں کو گھر بیٹھے سبزیاں مل رہی ہیں، نانبائی دودھ دہی کی دکانیں، میڈیکل سٹورز رات گئے تک کھلے رہتے ہیں۔ اس جزوی لاک ڈاؤن کو عید تک اسی طرح برقرار رکھا جاتا اور پھر اس وقت کی صورتحال میں مزید فیصلے کئے جاتے! اگر آپ موجودہ صورتحال کا جائز لیں تو یہ ابھی اتنی بہتر نہیں ہے جو پاکستانی یونائیٹڈ عرب امارات سے واپس آرہے ہیں ان میں کرونا کی شرح انتہائی تشویش ناک ہے۔ یہ چھوٹے موٹے ورکرز ہیں جو وہاں رہائشی عمارتوں میں اکٹھے رہتے تھے اسی لئے ایک سے دوسرے کو وائرس لگتا گیا ہے خوفزدہ کردینے والی صورتحال یہ ہے کہ اس وقت متحدہ عرب امارات میں تقریباً پندرہ لاکھ پاکستانی موجود ہیں جو اب وہاں کام نہ ہونے کی وجہ سے بے کار ہیں اور اپنے وطن واپس لوٹنا چاہتے ہیں۔ اب تک 60ہزار پاکستانیوں نے وطن واپس آنے کیلئے درخواستیں دی ہوئی ہیں اور یہ تعداد اب روزبروز بڑھتی چلی جارہی ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں کرونا وائرس میں مبتلا لوگوں کو قرنظینہ میں ڈالنے میں بھی مشکلا ت کا سامنا ہے کیونکہ ہمارے پاس اتنی گنجائش ہی نہیں ہے ہمارے اپنے ملک میں کرونا کیسز روزبروز بڑھتے چلے جارہے ہیں، اسی طرح اموات بھی تواتر کیساتھ ہورہی ہیں، ایک نظر ہسپتالوں کی صورتحال پر بھی ڈال لیتے ہیں اب تک سینکڑوں ہیلتھ ورکرز وائرس میں مبتلا ہوچکے ہیں اور ان کے گھرانے بھی محفوظ نہیں ہیں، پشاور کے سب سے بڑے تدریسی ہسپتال کی گائنی وارڈ کی 14لیڈی ڈاکٹرز بھی اس وبا کے باعث اپنے گھروں میں کورنٹائن ہیں، اسی طرح ایمرجنسی میں آنے والے عام مریض بھی غیرمحفوظ ہوگئے ہیں۔ ہسپتالوں میں کرونا وائرس تیزی سے پھیلنے کی سب سے بڑی وجہ خاطر خواہ انتظامات کا نہ ہونا ہے بہت سے دوسرے امراض میں مبتلا مریض ہسپتالوں کی ایمرجنسی میں آنے کے بعد کرونا میں مبتلا ہوچکے ہیں، جہاں صورتحال یہ ہو کہ ڈاکٹرز بھی محفوظ نہ ہوں تو آپ سوچئے عام آدمی کے کیا حالات ہوں گے؟ اب لوگ ہسپتالوں سے دور بھاگ رہے ہیں، ڈاکٹرز بار بار کہہ رہے ہیں کہ ہر گزرتے دن کیساتھ حالات مزید خراب ہورہے ہیں، عوام کی بے احتیاطی کا خمیازہ بڑے نقصان کی صورت میں سامنے آسکتا ہے!دکاندار اپنی دکان کا آدھا شٹر اُٹھا کر خواتین کو دکان کے اندر داخل کردیتے ہیں، اگر اچانک پولیس کا چھاپہ پڑ جائے تو شٹر بند کردیا جاتا ہے، اب آپ اندر کی صورتحال کے بارے میں خود اندازہ لگا سکتے ہیں! انتظامیہ کئی بازاروں میں ہتھ ریڑیاں اُلٹ رہی ہے، یہ غریب لوگوں کی ساری جمع پونجی ہوتی ہے جسے سڑک پر اُلٹ دیا جاتا ہے، یہ وہ افراط وتفریط والا رویہ ہے جس پر ہمیں اعترا ض ہے! ہتھ ریڑیوں کو بازاروں میں آنے سے روکنے کی کئی اور صورتیں بھی تو ہو سکتی ہیں؟ کالم کے آخر میں یہی گزارش ہے کہ کرونا کے بے ہنگم پھیلاؤ کو دیکھتے ہوئے فی الحال عید تک موجودہ صورتحال کو اسی طرح رہنے دیا جائے حکومت سمارٹ لاک ڈاؤن کی بات تو کرتی ہے لیکن ہمارے لوگ اس بات کو نہیں سمجھتے یہ ذرا سی ڈھیل ملنے کے بعد ساری حدیں پھلانگ جاتے ہیں اللہ ہم سب پر رحم فرمائے۔ آمین۔

مزید پڑھیں:  برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر؟