انتخابات ملتوی

ملک میں ایمرجنسی لگاکرہی انتخابات ملتوی کئے جاسکتے ہیں،چیف جسٹس

ویب ڈیسک::پنجاب اور خیبرپختونخوامیں الیکشن ملتوی کرنے کیخلاف پاکستان تحریک انصاف کی درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ایمرجنسی لگا کر ہی الیکشن ملتوی کیے جاسکتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی درخواست پر چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے منگل کے روز دوبارہ سماعت کی۔بینچ میں جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس امین الدین اور جسٹس جمال خان مندوخیل شامل ہیں۔
سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اس سماعت کو بہت لٹکانا نہیں چاہتے۔ سپریم کورٹ اچھی نیت کیساتھ کیس سن رہی ہے، فریقین نے فیصلہ کرنا ہے کہ حالات کو کس طرف لیکر جاتے ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان عمرعطا بندیال نے کہا کہ سادہ سا سوال ہے کہ الیکشن کمیشن تاریخ آگے کر سکتا ہے یا نہیں، اگر الیکشن کمیشن کا اختیار ہوا تو بات ختم ہوجائیگی۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالتی فیصلہ اگر چار تین کا ہوا تو کسی حکم کا وجود ہی نہیں جس کی خلاف ورزی ہوئی، عدالتی حکم نہیں تھا تو صدر مملکت تاریخ بھی نہیں دے سکتے تھے، یکم مارچ کے عدالتی حکم کو پہلے طے کرلیا جائے۔چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ اس وقت مقدمہ تاریخ دینے نہیں منسوخ کرنے کا ہے، دو معزز ججز نے فیصلہ دیا ہے، ان دو ججز کی اپنی رائے ہے لیکن اس کا موجودہ کیس سے کوئی تعلق نہیں
ایک سنجیدہ معاملے کو بائی پاس نہ کریں۔اس موقع پر اٹارنی جنرل منصور عثمان نے فل کورٹ بنانے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ درخواست ہے کہ یہ اہم معاملہ ہے اور بینچ مناسب سمجھے تو فل کورٹ بنا دے۔ جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ یکم مارچ کا فیصلہ کتنے ارکان کا ہے یہ سپریم کورٹ کا اندرونی معاملہ ہے، یہ بتادیں کہ کیا آئین 90 دنوں میں انتخابات کرانے کا تقاضا کرتا ہے یا نہیں؟ کیا الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ منسوخ کرسکتا ہے؟چیف جسٹس نے کہا کہ معاملہ کلیئر کرنے پر جسٹس جمال مندوخیل کا مشکور ہوں۔چیف جسٹس نے کہا کہ ملک میں اس وقت تشدد اور عدم برداشت ہے، معاشی حالات دیکھیں، آٹے کے لیے لائنیں لگی ہوئی ہیں، آپس میں دست وگریباں ہونے کے بجائے اُن لوگوں کا سوچیں، تحریک انصاف اگر پہل کرے تو ہی حکومت کو کہیں گے۔
جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ سوال یہ ہے کہ اب 90 دن سے زیادہ تاریخ بڑھانے کی اتھارٹی کس کی ہے؟ سوال یہ بھی ہے کیا ایک بندے کی خواہش پراسمبلی تحلیل ہونی چاہیے یا نہیں؟جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ایک شخص کے اسمبلی تحلیل کرنے کے اختیار پرپارلیمنٹ کو نظرثانی کرنی چاہیے۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن کا اختیار ہے کہ صدر مملکت کی تاریخ کو بدل دے؟ کیا الیکشن کمیشن 90 دن سے زیادہ کی تاخیر کرسکتا ہے؟چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ الیکشن ایکٹ کا سیکشن 58 انتحابات منسوخ کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ الیکشن کمیشن تاریخ تبدیل کرنے کے لیے صدر سے رجوع کرسکتا تھا، تمام انتظامی ادارے الیکشن کمیشن سے تعاون کے پابند ہیں، وجوہات ٹھوس ہوں تو ہی الیکشن کمیشن رجوع کرسکتا ہے، عملی طورپر الیکشن 90 دن میں ممکن نہ ہوں تو عدالت حکم دے سکتی ہے۔جسٹس منیب نیکہا کہ اگر انتخابات ممکن نہیں تھے تو الیکشن کمیشن کو عدالت سے رجوع کرنا چاہیے تھا۔اس موقع پر چیف جسٹس نے انتخابات کے لیے ججز کی تنخواہوں میں کٹوتی کی تجویز دے دی۔جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ اگرالیکشن کمیشن اپنا حکم واپس لے یا عدالت کالعدم قرار دیکر کہے کوئی مدد نہیں کر رہا توکیا ہوگا؟ اپنی مشکلات حل کروانے کے لیے کمیشن کو عدالت ہی آنا پڑے گا۔ سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت بدھ کی صبح ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی۔

مزید دیکھیں :   ایل پی جی کی قیمت میں37 روپے کی کمی