ایم کیو ایم سے پی ٹی آئی تک

وہ ایک محفل میں بات ہو رہی تھی اس وقت جب تحریک انصاف مقبولیت کی سیڑھیاں چڑھ رہی تھی اور زینہ لگا کر اس کی پوری مدد ہو رہی تھی ایسا ماحول بن رہا تھا کہ جیسا کہ جادو سر چڑھ بولے اور بولا بھی اب لگتا ہے کہ زینے کی سہولت چھن چکی اور سیڑھیوں پہ حیران و پریشان کھڑی ہے محفل میں تحریک انصاف کے نعروں پہ بات چلی ہر کسی نے اپنی رائے دی ہر کوئی گرم جوش تھا کہ اب ملک میں حالات تبدیل ہونے جارہے ہیں عمران خان وزیر اعظم بنیں گے تو یہ ہو گا وہ ہو گا محفل جمی تھی اور ایک شریک محفل خاموشی سے سب کی سن رہا تھا انہوں نے کوئی بات نہ کی موضوع بدلنے لگا تو اچانک سے کہا ذرا یہ بھی سوچو کہ جب پی ٹی آئی بھی ناکام ہو گی تو اس کے گرم جوش کارکنوں کی مایوسی کا کیا عالم ہو گا اور معاشرے پر اس کے اثرات کیا مرتب ہوں گے ۔ سبھی نے ایک عجیب سی نظر متکلم پر ڈالی گویا وہ دور کی کوڑی نہیں لا رہے بلکہ خلاف حقیقت کوئی انوکھی بات کی ہو کسی نے جواب نہیں دیا اور نہ ہی موصوف نے کوئی دوسرا جملہ ارشاد کیا ماہ و سال گزرتے گئے انتخابات ہوگئے تحریک انصاف حسب توقع اور حسب منصوبہ جیت گئی اعلان ہوا کہ نوے روز مسائل کے حل ہونے کے لئے کافی ہوں گے۔عمران خان نے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھا لیا نوے دن گزر گئے تین ماہ کی بجائے تین سال گزر گئے مسائل جوں کے توں بلکہ حالات میں بگاڑ اور مہنگائی میں ا ضافہ ہوتا گیا تحریک عدم اعتماد آئی اور زینہ بھی کھینچ لیا گیا کل کا وزیر اعظم سڑکوں پر آگیا جب پی ٹی آئی کے نوجوان کارکن مایوس اور مشتعل ہو گئے تو مجھے اس درویش صفت شریک محفل شخص کی بات بار بار یاد آنے لگی کچھ دن تو میں نے دھیان ہٹایا چونکہ اب میری پوسٹنگ لاہور ہے اور زمان پارک کے حالات سے آگاہی او ر لوگوں کی باتیں اور تبصروں سے کچھ زیادہ ہی سمع خراشی کی زحمت بھی اٹھاتی رہیں بہرحال مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے اس شریک محفل سے رابطہ کرکے پہلے ان سے معذرت کی کہ میں نے اس وقت ان کی بات کو سرسری لیا تھا تو ہنسے اور کہنے لگے اب تو میری بات کو سنجیدہ سمجھ رہی ہونا پھر پوچھا کہ کیوں کیا ہوا۔ میرا جواب تھا کہ مجھے پی ٹی آئی کے نوجوانوں کی امنگ مایوسی میں تبدیل ہوتی دکھائی دے رہی ہے کہنے لگے میں نے بھی تو اس وقت یہی کہا تھا نا لیکن کسی نے نہیں سنی میں نے پوچھا کہ آپ کوا ن کے عروج کے وقت زوال کے حالات کا درست ا ندازہ کیسے ہوا؟کہنے لگے سیدھی سی بات ہے میں نے مہاجر قومی موومنٹ ایم کیو ایم کے عروج و زوال کا بڑے قریب سے مشاہدہ کیا ہے مجھے معلوم ہے کہ جب ہوائوں کا رخ موافق ہوتا ہے تو کس طرح ہر چیز کنٹرول میں ہوتی ہے اور جب ہوائوں کا رخ بدل جائے تو کیا ہوتا ہے پھر بتایا کہ وہ ان دنوں کراچی میں تعلیم حاصل کر رہے تھے مہاجر قومی موومنٹ کا مائی باپ اشتیاق اظہر اس وقت صحافی بعد میں سینیٹر بھی بنے ہمیں لیکچر دینے آتا تھا ان کے قریبی عزیز ناصر میرے کلاس فیلو تھے وہ اس حدتک بتاتے تھے کہ کل اتنے بج کر اتنے منٹ پر فلاں علاقے سے نہیں گزرنا وہاں فائرنگ ہو گی ایک دو مرتبہ تو نظر انداز کیا مگریکے بعد دیگرے
جب ان کی پیشگوئی سچ ثابت ہوئی تو پھر یقین نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں رہی پھر اٹھنا بیٹھنا بھی مہاجر نوجوانوں اور خاص طور پر طالب علموں میں تھا وہ اس قدر پرجوش تھے کہ مہاجر قومی موومنٹ کلین سویپ کرکے اقتدار میں آئے تو ان کو ملازمتیں ملیں گئی ان کے مسائل حل ہوں گے ان کو اسلام آباد پنجاب اور پٹھانوں کی تسلط سے نجات ملے گی ہمارے ایک اور محترم ٹیچر تھے جو کلاس میں تاریخ پڑھاتے ہوئے ایوب خان کو باربار کوستے تھے کہ انہوں نے کراچی سے دارالخلافہ اٹھا کر اسلام آباد لے جا کر مہاجروں سے بڑی ناانصافی کی ا ن کا ایک جملہ آج بھی پوری طرح یاد ہے کہ اسلام آباد پنجابیوں کے لئے ہی نزدیک نہیں پٹھان ایک قدم گھر سے اٹھاتا ہے دوسرا اسلام آباد میں ۔ پھر میں نے یہ بھی دیکھا کہ ایم کیو ایم ناکام ہوئی تو دہشت گردی شروع کر دی ظاہر ہے مایوس نوجوانوں کی توجہ ہٹانا اور ان سے کام بھی لینا تھا نوکریاں ملازمتیں اور حقوق کیا ملنا تھے بوری بند لاشیں ملنی شروع ہو گئیں میں نے ٹوکا کہ پھر آپ کا مطلب یہ ہوا کہ تحریک انصاف بھی اسی راہ پر چل نکلے گی جواب دیا ایسا میں نے کب کہا ہے میں نے تو آپ کو آئینہ دیا ہے اس میں دیکھ لیں پھر گویا ہوئے کہ کیا آپ کو نوجوانوں میں مایوسی محسوس نہیں ہوتی وہ وقت پھر بھی اچھا تھا اتنی مہنگائی اور بیروزگاری نہ تھی مگر آج دیکھ لیں عام آدمی کتنا مایوس اور نوجوان کس قدر مضطرب ہے حالات سے ڈر لگتا ہے اور مشکل یہ کہ کوئی راستہ بھی سجھائی نہیں دیتا ۔میں سوچتی رہ گئی اور مختلف قسم کے خیالات آتے گئے میں نے بڑی کوشش بھی کی کہ پراگندہ خیالوں کو جھٹک دوں مگران کی
ایک پیشگوئی سچ ثابت ہو کر سامنے تھی اس لئے ان کے خیالات کے حصار سے کوشش کے باوجود نہ نکل سکی۔ میں خود بھی ان لوگوں میں شامل ہوں جن کی تحریروں میں تحریک انصاف کو مسائل کا حل جادو کی چھڑی گھما کر کرنے کا باورکرانے کا تاثر دیا جاتا تھا سچ کڑوا ہوتا ہے اور سچائی کو قبول کرنا بڑا مشکل ہوتا ہے مگر تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ جذباتی نوجوان سخت مایوسی کا شکار ہیں وہ اپنی ندامت کا اظہار نہ بھی کریں تو بھی اس دوران ملازمتوں کے لئے دھکا کھاتے ہوئے اور مایوسی کا شکار بن کر وہ سوچتے ضرور ہوں گے کہ انہوں نے سوچا کیا تھا ان کو کیا کیا خواب دکھائے گئے تھے اور آج وہ کہاں کھڑے ہیں ان کا مستقبل کیا ہو گا ملک ان حالات سے کیسے نکلے گا۔ ان کا فیصلہ کتنا درست تھا اور اگر غلط تھا تو اب ان کو کیا کرنا چاہئے ظاہر ہے تحریک انصاف کی صورت میں نجات دہندہ کا جو تاثر ان کے ذہن میں تھا وہ بت تو پاش پاش ہو چکا مگر مشکل یہ ہے کہ ان کے پاس کوئی اور آپشن نہیں جس سیاسی جماعت کی قیادت و سیاست کا جائزہ لو دل یہی گواہی دے گا کہ سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں راستے مسدود ہوں اور حالات مشکل تو پھر مایوسی کفر تک پہنچانے کا ہی باعث ہی بنے گی۔ ہر شاخ پہ الو بیٹھا نظر آئے تو انجام گلستان کا خوف لاحق رہے گا ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا چھایا ہونے کا احساس شدت سے شدت تر اختیار کرتا جائے تو پھر نہ چاہ کر بھی دل مایوسیوں کے اندھیروں کو قبول کرنے کو کرتا ہے دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ تاریخ خود کو نہ دہرائے اور تحریک انصاف دوسری ایم کیو ایم ثابت نہ ہو۔ تحریک انصاف کی قیادت کو چاہئے کہ وہ اپنے نوجوانوں کے اس آخری جوش جس کے بعد مایوسی کی سرحد شروع ہونے والی ہے اس سے بچانے کی فکر کرے۔

مزید پڑھیں:  واعظ بھی تو منبر پہ دعا بیچ رہا ہے