لاینحل مسئلہ

پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کی تاریخ سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کو صرف دونوں اطراف سے یقین دہانی چاہیے، انتخابات پرامن،شفاف اورمنصفانہ ہونے چاہئیں، یقین دہانی کرائیں کہ شفاف انتخابات کے لیے پی ٹی آئی اور حکومت پرامن رہیں گے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا عوام کے لیے کیا اچھا ہے کیا نہیں اس حوالے سے فریقین خود جائزہ لیں، آئین پاکستان صرف حکومت بنانے اور گرانے کے لیے نہیں ہے، عوام کی زندگی اور خوشی کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی آئین کی تشریح ہوتی ہے۔ان کا کہنا تھا موجودہ صورتحال بہت تشویشناک ہے، انتخابات تب ہی ہو سکتے ہیں جب حالات سازگار ہوں، حقائق سے منہ بھی موڑا نہیں جا سکتا، حکومت اور پی ٹی آئی فیصلہ کر لیں پاکستان کے لیے کیا بہتر ہے۔بدقسمتی سے سیاسی معاملات بلکہ سیاسی لڑائی ایوانوں اور میدانوں میں لڑنے کی بجائے اب عدالتوں میں لڑی جانے لگی ہے انتخابات کے حوالے سے دیکھا جائے تو آئینی اور قانونی طور پر اس میں کوئی رکاوٹ اور ابہام نہیں البتہ جس قسم کے سیاسی حالات بنا دیئے گئے ہیں اور انتخابات کو مزید الجھانے کا جو سلسلہ جاری ہے اصل مسئلہ وہ ہے اور اس سے بڑھ کر مسئلہ یہ ہے کہ کوئی بھی فریق مل بیٹھ کر بات چیت کے ذریعے معاملات طے کرنے پرتیار نہیں اب تو بدقسمتی سے یا وہ نہیں رہے گا یا ہم نہیں رہیں گے قسم کی دھمکی آمیز بیانات اور جوابی بیانات کا سلسلہ چل نکلا ہے ۔آئینی اور قانونی طور پر معاملات کا فیصلہ عدالت ہی دے گا لیکن قانونی نکات سے ہٹ کر حالات کے حوالے سے چیف جسٹس کے ریمارکس کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اور دیکھا جائے تو اصل مسئلہ ہی آئینی و قانونی نہیں بلکہ حالات کا ہے جس جماعت کو انتخابات کے انعقاد کی جلدی ہے وہ حالات میں بہتری لانے میں تعاون پرآمادہ نہیں اور اپنے طریقے سے انتخابات کا انعقاد چاہتی ہے جبکہ صاحبان اقتدار اور اتحادی جماعتیں اپنی مرضی اور وقت پر انتخابات کی حامی ہیں حالات کو سازگار بنانے اور انتظامات میں معاونت پر کوئی فریق تیار نہیں تو الیکشن کمیشن کیسے اور کیونکر انتخابات کا انعقاد یقینی بنا سکتی ہے عجیب سی صورتحال پیدا کی گئی ہے جس میں بیک وقت آمادگی اور انکار کی کیفیت بنا دی گئی ہے حالات اس قدر بھی مکدر نہیں لیکن جب حکومت ہی حالات کی خرابی کاعذر کرے ساتھ ہی انتخابی ضروریات اور انتظامات کے سلسلے میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے رکھ کر بیٹھنے کی کیفیت ہو تو انتخابات کا کوئی خود کار نظام ہے نہیں اس مسئلے کا حل مل بیٹھ کر باہم اتفاق رائے سے معاملات طے کرنے ہی کا رہ جاتا ہے سیاسی جماعتوں کے درمیان مکالمہ شروع ہو تبھی کوئی درمیانی راستہ نکل سکتا ہے ان حالات میں تو عدالت بالاخر شاید فیصلہ نہیں بلکہ مشورہ دینے پر اکتفا کرے ۔چیف جسٹس نے جو ریمارکس دیئے ہیں انتخابی تنازعے کا حل انہی سے نکلنا ہے جب تک فریقین اس پر آمادہ نہیں ہوں گے مختلف حیلے بہانے اور قانونی نکات سامنے آتے جائیں گے اور انتخابات کی تاریخ بڑھانے اور مقررہ تاریخ پر انتخابات کا ممکنہ التواء کے حربے ہی استعمال ہوتے رہیں گے جہاں تک انتخابات کے انعقاد کا سوال ہے اس کے آئینی اور قانونی بحث سے قطع نظر جس طرح اسے کھیل بنا دیاگیا ہے اس کی بھی گنجائش نہیں ہونی چاہئے بہتر صورت یہی نکل سکتی ہے کہ عام انتخابات کااعلان کچھ عرصہ قبل کیا جائے اور پورے ملک میں ایک ساتھ انتخابات کے انعقاد پر اتفاق کیا جائے تاکہ نہ اس وقت اور نہ ہی آئندہ دو صوبائی اسمبلیوں کی مدت پوری ہونے پر پھر انتخابات کے انعقاد کا ایک سلسلہ شروع ہونے کا مسئلہ پیدا ہو اگر چہ یہ سپریم کورٹ کااختیار اور ذمہ داری نہیں لیکن اب جبکہ کیس وہاں زیر سماعت ہے تو عدالت ہی اس میں کوئی کردار ادا کرکے بحران کا کوئی حل نکال سکے تو یہ بڑی قومی خدمت ہو گی جس کے بعد سیاسی حالات کی سنگینی اور کشیدگی میں خود بخود کمی آ سکتی ہے۔ اس صورتحال کے ادراک کی ضرورت ہے کہ پاکستان میں جاری سیاسی انتشارپوری دنیا میں اس تاثر کو عام کررہا ہے کہ پاکستانی قوم اپنی تاریخ کے انتہائی پر خطردور سے گزر رہی ہے اور سیاسی انتشار و افتراق اور معاشی زبوں حالی نے اس کے مستقبل کوسنگین خطرات سے دوچار کردیا ہے، عدالتی عمل کے جاری رہنے میں بھی رکاوٹیں حائل ہیں اورامن وامان کے قیام سے متعلق ادارے بھی اپنے فرائض کی انجام دہی میں مشکلات سے دوچار ہیں۔ یہ حالات جس درجہ خطرناک ہیں وہ محتاج وضاحت نہیں۔ ملک کے محفوظ مستقبل کیلئے ضروری ہے کہ آئین و قانون کے مکمل نفاذاور نظم و ضبط کے بھرپور اہتمام میں کوئی کسر نہ چھوڑنے کے ساتھ ساتھ حکومتی اقدامات اور احتسابی عمل کو سیاسی انتقام کے ہرشائبہ سے پاک رکھا جائے جبکہ اپوزیشن بھی آئین و قانون کی مکمل پاسداری کو یقینی بنائے اور قومی معاملات میں حب الوطنی کے تقاضوں کے مطابق اپنی ذمہ داریاں پوری کرے کیونکہ یہ ملک سب کا ہے ، اسے قائم رکھنا اور دنیا میں اس کی عزت و عظمت کا پرچم بلند رکھنا سب کا مشترکہ فریضہ ہے۔

مزید دیکھیں :   مسئلہ کشمیر میں میڈیا کا کردار