چیف جسٹس کے اختیارات

چیف جسٹس کے اختیارات کم،بل منظور

ویب ڈیسک:پاکستان کی قومی اسمبلی نے عدالتی اصلاحات کا بل منظور کر لیا ہے جس کے تحت چیف جسٹس کے اختیارات کم کئے گئے ہیں۔سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر نامی اس بل کے مسودے میں موجود ترامیم کے مطابق بنچوں کی تشکیل، از خود نوٹس کا فیصلہ ایک کمیٹی کرے گی جس میں چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججز ہوں گے۔ یہی کمیٹی بنیادی انسانی حقوق کے معاملات کم از کم تین ججوں پر مشتمل بینچ کو بھجوائے گی۔انٹرا کورٹ اپیل پر 14 روز میں سماعت ہوگی۔
ارجنٹ معاملات کے کیسز 14 روز کے اندر اندر سماعت کے لیے مقرر ہوں گے۔ قومی اسمبلی میں منظوری سے قبل یہ بل قائمہ کمیٹی برائے قانون سے منظور ہوا تھا۔ قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد یہ بل ایوان بالا یعنی سینٹ سے منظور کیا جائے گا۔ اس کے بعد یہ قانون کی شکل اختیار کرے جائے گا۔قائمہ کمیٹی سے بل کی شق وار منظوری لی گئی۔ محسن داوڑ نے بل میں ترمیم پیش کر دی اور وفاقی وزیر اعظم نذیر تارڑ نے ترمیم کی حمایت کی۔ محسن داوڑ نے کہا کہ کراچی کا نسلہ ٹاور بھی ازخود نوٹس کی وجہ سے گرایا گیا۔ انہوں نے تجویز دی کہ ماضی میں184/3 کے متاثرین کو 30دن میں اپیل کا حق دیا جائے۔پیپلزپارٹی نے محسن داوڑ کی ترمیم کی حمایت کر دی جس کے بعد ماضی میں 184/3 کے متاثرین کو اپیل کا حق دینے کی ترمیم منظور کر لی گئی۔ قومی اسمبلی میں بل پیش ہونے کے بعد قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے عبدالاکبر چترالی نے کہا کہ سپریم کورٹ کے ججز غلط ازخود نوٹس لیتے رہے ۔ پی ٹی آئی رکن صالح محمد نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ قانون سازی آزاد عدلیہ پر قدغن لگانے کے مترادف ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس بل میں سپریم کورٹ کو تقسیم کرنے کی سازش کی گئی ہے، بل کی آڑ میں عدلیہ پر حملہ کیا جا رہا ہے اس لیے وکلا برادری سے درخواست ہے کہ وہ عدلیہ کیساتھ کھڑی ہو۔ قائد حزب اختلاف راجہ ریاض نے عدالتی اصلاحات بل کی حمایت کی۔ وفاقی وزیر شیری رحمان نے کہا کہ یہ بل فرد واحد کے اختیارات کو سینئر ججوں میں تقسیم کرنے پر ہے، عدالتوں کے اندر ججوں کی جو اختلافی آواز آرہی ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ دو ججز کے فیصلے سے کافی اضطرابی کیفیت پیدا ہوئی اور یہ بھی کہا گیا کہ سوموٹو میں ون مین شو نہیں ہونے چاہیے، بار کونسل سمیت حامد خان نے بھی کہا کہ یہ قانون وقت کی ضرورت ہے۔ ایک چیف جسٹس آکر 300۔400 سومٹو لیتے ہیں اور ایک چیف جسٹس دو تین لیتا ہے۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے بعد کسی چیف جسٹس نے سامان سے شیشی نکلنے یا گلی میں پانی کھڑا ہونے پر سوموٹو نہیں لیا۔ انہوں نے کہا کہ سینئر ججز کی کمیٹی اس کو ریگولیٹ کرے گی

مزید پڑھیں:  روپے کی قدر مزیدگرنے کا امکان نہیں ،وفاقی وزیر خزانہ