پاکستان کسان مزدور تحریک

80 فیصد چھوٹے کسانوں کے پاس 5 ایکڑ سے بھی کم زمین،کارپوریٹ کاقبضہ

ویب ڈیسک: پاکستان کسان مزدور تحریک کے عہدیداروں نے کہا ہے کہ بے زمین کسانوں کا دن پاکستان میں کسانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے مسلسل غیر انسانی، استحصالی اور جابرانہ رویوں کی نشاندہی کا دن ہے۔ زمین کے ارتکاز کا عالم سرکاری ذرائع سے حاصل کردہ ان اعداد و شمار سے واضح ہوتا ہے کہ آزادی کے وقت صرف سات فیصد زمینداروں کے پاس 53 فیصد زرعی زمین تھی جبکہ گزشتہ برسوں کے اعداد و شمار کے مطابق صرف پانچ فیصد خاندانوں کے پاس 64 فیصد زرعی زمین ہے جبکہ 80 فیصد چھوٹے کسانوں کے پاس پانچ ایکڑ سے بھی کم زمین ہے جبکہ زمین کی ملکیت میں عورتوں کا حصہ دو فیصد سے بھی کم ہے
پشاور پریس کلب میں پاکستان کسان مزدور تحریک کے ممبر اسٹیرنگ کمیٹی طارق محمود، آصف محمود ممبر پشاور، فیاض احمد، لال زمین اور منور شاہ منور نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ سرکاری اعداد و شمار ملک کے ایک بہت چھوٹے اشرافیہ جاگیردارانہ ڈھانچے کے ہاتھوں میں دولت کے شدید ارتکاز کی نشاندہی کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ عالمی بینک، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) جیسے سامراجی اداروں نے ملکی پالیسی سازی کے ساتھ ساتھ زرعی منصوبوں پر عملدرآمد کرانے میں بھی شدید مداخلت کی ہے جس نے ہماری زرعی زمین کے ساتھ ساتھ منڈیوں کو بھی قبضے میں کر رکھا ہے
مختصر یہ کہ پورے نظام خوراک و زراعت کو کارپوریٹ قبضہ کیلئے کھول دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ موسمیاتی سامراجیت زراعت کیلئے انتہائی تباہ کن ہے اور بے زمین کاشتکاروں، ٹھیکے پر کام کرنیوالے کسانوں، ہاریوں، مزارعوں اور زرعی مزدوروں کیلئے دگنی تباہ کن رہی ہے۔ گزشتہ ایک سال میں لگاتار سیلاب، موسلا دھار بارشوں اور اب اس مہینے میں ہونیوالی ژالہ باری کی وجہ سے تیار فصلیں تباہ ہوئی ہیں اور یہ تباہ کاریاں بار بار اپنا اثر دکھا رہی ہیں۔ ان موسمیاتی بحرانوں کے نتیجے میں بے زمین کسانوں کا نہ صرف معاشی نقصان ہوا ہے بلکہ انکے مویشیوں کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔
اتنی بڑی تباہی کے باوجود آئی ایم ایف قرض حاصل کرنے کیلئے انتہائی سخت عوام دشمن شرائط عائد کر رہا ہے جس کے نتیجے میں شدید غربت اور بھوک میں اضافہ ہوا ہے۔ انہوںنے کہا کہ گزشتہ چند برسوں سے کسانوں کیلئے تشویشناک صورتحال شعبہ مال مویشی اور ڈیری سیکٹر (دودھ اور دودھ سے حاصل کردہ دیگر مصنوعات) میں حکومت کے حمایت یافتہ کارپوریٹ منصوبے ہیں۔ ملک کے دیسی بیجوں کو تباہ کرنے کے بعد اب روایتی انمول مویشیوں کو پسماندہ قرار دینے اور انہیں بے دخل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
پاکستان دنیا میں دودھ پیدا کرنیوالا چوتھا بڑا ملک ہے، ایک ایسی حیثیت اور اعزاز جو یقیناً بے زمین کاشتکاروں کی کمر توڑ محنت پر مبنی ہے، بجائے اسکے کہ اس محنت کا صلہ ان کسانوں میں زمین کی منصفانہ اور مساویانہ بنیادوں پر تقسیم کر کے دیا جا تا، الٹا انہیں بے دخل کرنے کی سازشیں کی جا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنے دیہی اثاثوں کے بچائو اور ان پر کارپوریٹ کنٹرول کی مخالفت اور سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام کے خاتمے کیلئے مضبوط اور متحد ہونگے ۔
زمین کی منصفانہ اور مساویانہ تقسیم، خوراک کی خود مختاری اور موسمی انصاف کیلئے ہماری جدوجہد جاری رہے گی انہوں نے مطالبہ کیا کہ بے زمین کسانوں، خاص طور پر عورت کسان کیلئے زمین کی منصفانہ اور مساویانہ تقسیم کی جائے، موسمیاتی بحران پر قابو پانے کیلئے پائیدار طریقہ پیداوار کو اپنایا جائے،کیمیائی مادوں سے پاک قدرتی تازہ خوراک کی فراہمی اور وکالت کرنی چاہئے، معاشرے کے پریشان حال طبقوں، خاص طور پر چھوٹے اور بے زمین کسانوں میں معیاری بنیادی اشیائے خوردونوش کی مفت تقسیم سمیت آئی ایم ایف کی جانب سے نافذ کی جانیوالی شرائط کا خاتمہ کیا جائے اور خوراک اور زراعت کے شعبے میں تمام سامراجی پالیسیوں کا خاتمہ کیا جائے۔

مزید پڑھیں:  سانحہ 9 مئی کے آخری 19 ملزمان کی بھی ضمانتیں منظور